جموں وکشمیر میں بے روزگاری جاں بلب ہیں نوجوان ، روح پیاسی

روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور کرپشن کا خاتمہ حکومت کی ذمہ داری

 

ڈاکٹرامتیاز عبدالقادر

دنیا میں زیادہ تر مخصوص افراد اور اقوام نے لوگوں کا معاشی استحصال کیا ،جس کے نتیجے میں زمین پر فساد میں روزافزوں اضافہ ہوا ہے اور انسانوں کی اکثر آبادی محرومیوں کا شکار ہوتی آرہی ہے۔ یہ داستان طویل بھی ہے اور خونچکاں بھی۔افریقہ ہو یا برصغیر ہندیامشرق وسطیٰ کے علاقے،استعماری قوتوں نے اپنی نو آبادیوں کے وسائل سے خوب خوب فائدہ اٹھایااور اپنی معیشت کو مستحکم کرلیا۔ معیشت کی یہ ترقی یک طرفہ رہی ، جن ممالک یا علاقوں کے انسانی اور مادی وسائل کا فائدہ سمیٹا گیا ،خود اُن کو محروم رکھا گیا۔ بلکہ ان کی محرومیوں میں اضافہ کرکے انہیں دانے دانے کا محتاج بنایا گیا۔ چند ممالک اور علاقوں پر یہ غاصب اقوام اس طرح قابض ہوئیں کہ وہاں کی مقامی آبادیوں کو بے دخل اور بے دست و پا کردیا۔
جنگ عظیم دوم تک استحصال کا طریقہ یہ رہا کہ غاصب قوتیں ، کمزور اقوام پرقابض ہوکر انہیں اپنی کالونی بنا کر یا کم از کم وہاں اپنی مضبوط فوجی چھاونی بنا کر انسانی اور مادی وسائل سے مستفید ہوتی رہیں۔ مشرق وسطیٰ ، جاپان ،افغانستان اور دیگر ممالک میںاستعماری مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے فوجی اڈے اور بحری بیڑے موجود ہیں۔ عراق کے تیل کے وسائل اور افغانستان کی معدنیات مغربی استعمار کے پنجہء استبداد میں ہیں ۔ زیادہ تر انسانوں کا ذہن اس سانچہ میں ڈھل چکا ہے کہ معیار زندگی کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانا ہی زندگی کا اصل مقصد ہے۔ بقول کَسے’’جدید انسان کا مذہب معاشیات ہے‘‘ بے معنی بات نہیں۔ تمام اصولوں ، تمام فلسفوں اور اقدام کو بالائے طاق رکھ کر ہر شخص غمِ دنیا میں غلطاں و پیچاں ہے۔ سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیفیت کی بہترین تصویر اس حدیث میں کھینچی ہے:۔ ’’اگرآدم زاد کے پاس دو وادیاں بھر کر مال ہو تو وہ تیسری وادی کی تمنّا کرے گا۔ ابن آدم کا پیٹ مٹی کے سوا کسی چیز سے نہیں بھر سکتا‘‘۔ (بخاری) اپنے غم میں گرفتار ، اپنی ذات میں گم اور اپنے معیار زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی اس دھن میں انسانوں کے محروم طبقات کی طرف توجہ کرنے کا کسی کو موقع نہیں ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ اپنے منافع اور مفاد میں دوسروں کی جان کا سودا کرلینا معمول بن چکاہے۔ڈاکٹروں کا صرف کمیشن کمانے کے لئے مریضوں کا طرح طرح کے ٹیسٹ کرانا، زچہ بچہ کی صحت پر عواقب کا خیال کئے بغیر عام کیس کو بھی آپریشن ٹیبل پر پہنچادینا ، منافع خوروں کے ذریعے زہر ہ ہلاہل کو دوائی کا لیبل چڑھاکر فروخت کرانا ، اشیائے خوردنی میں مہلک چیزوں کی آمیزش، جانوروں سے زیادہ دودھ حاصل کرنے کیلئے اور زمین سے زیادہ غلّہ و سبزی اُگانے کے لئے ہارمون کا استعمال روز مرہ کے واقعات ہیں۔ سماج کی بہبودی اور خوشحالی کو فروغ دینے کیلئے ، حکومتیں بنتی ہیں۔ استحصالی طبقوں کو کچل دینا، بے روزگاری کی لعنت کو دور کرکے روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور کرپشن کا خاتمہ کرکے ایمانداری اور دیانتداری کی فضا ہموار کرنا سریرِسلطنت پر براجماںحکمرانوں کا فرض منصبی ہے لیکن شومی قسمت پچھلے ساٹھ ستر سالوں میں وادی کشمیر میں ایسا کوئی رجل رشید پیدا ہی نہ ہوا۔
یہاں کرپشن کا خاتمہ کیسے ہو؟ جب کہ یہ کلرک سے لے کر کمشنراوروزیر تک کی سرشت میں ہے ، الاماشاء اللہ ۔بے روزگاری کم نہیں ہورہی بلکہ دن بہ دن اس میں اضافہ ہی ہورہا ہے کیونکہ کوئی قابل اور راست بازحکمران آج تک کشمیر کی مٹی نے پیدا ہی نہ کیا۔ جنہیں غم میں گرفتار عوام سے ہمدردی ہوتی اور ان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ہر آن کوشاں رہتے۔ اندھا راج ایسا کہ انگھوٹھا چھاپ ائیر کنڈیشنڈ روم میں وزارت کی کرسی پر بیٹھ کے قوم کا دیوالیہ نکال رہے ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل افراد روز گار کی تلاش میں دربدر بھٹکنے پر مجبور ہیں۔ جموں و کشمیر وہ بدنصیب ریاست ہے کہ جہاں اب ایک فرد کا سند یافتہ اور تعلیم یافتہ ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ سکول سے لیکر یونیورسٹی سطح تک ایک طالب علم اپنا اور اپنے والدین کا خون پسینہ ایک کرتا ہے۔بیس پچیس سال حصول تعلیم میں صرف کرکے بھی اس سے کوئی امید نہیں جب تک نہ استحصالی افسروں ، کلرکوں اور وزیر وں کی آگ زدہ شکم کو رشوت کے نجس سے بھر نہ دیں۔ نوکری کے حصول کے لئے ایسے بے تکے اصول مقرر کئے گئے ہیں۔ جنہوں نے بے روزگاری میں اضافہ کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ذہنی امراض میں مبتلا کردیا ہے۔ کشمیر میں چھپنے والا انگریزی روز نامہ’’گریٹرکشمیر‘‘ (G.K) میں شائع شدہ 15 جنوری 2015ء کے ایک تحقیقی مقالہ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر شمالی ہندوستان میں بے روزگاری کے حوالے سے سر فہرست ہے۔ ایک جائزے کے مطابق سال 2012-13 ء میں بے روزگاروں کی تعداد 5.94 لاکھ تھی اور مرورِ ایام کے ساتھ ساتھ اس میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہی ہورہا ہے۔ تعلیم یافتہ لڑکے لڑکیوں میں خود کشی کابڑھتا رجحان ، ذہنی تناو، جرائم کی طرف رغبت اور تنہائی پسندی بے روزگاری کے ثمراتِ خبیثہ ہیں۔ فریاد کریں تو آخر کس سے ، درد سنائیں تو کسے، بدحالی کا رونا روئیں تو کس کے پاس ؟ اہل اقتدار کی آنکھیں بینائی سے محروم ہیں ، کانوں کے پردے شق ہوچکے ہیں، ذہانت و قابلیت تو ان سے کوسو ںدور ہے اور دل غبار آلو د ؎
جب مسیحا دشمنِ جاں ہوتو ہو کیونکر علاج کون راہ بتلائےجب خضر بہکانے لگے
تعلیم یافتہ طبقہ کی اکثریت کو مجبور و لاچار بنائے رکھا گیا۔ انپڑھ تو مزدوری کرکے ضرورت کا سامان مہیاکرتا ہے لیکن تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان طبقہ خود کو والدین پر ایک بوجھ تصور کرنے لگا ہے۔ وہ قوم کیاترقی کرے گی جہاں یونیورسٹی سطح کے طلبا و طالبات خود کفیل نہ ہوں اور گاڑی کا کرایہ تک ماں باپ سے ہی وصول کرتے ہوں ؎
تنم سوخت، دلم سوخت، استخوانم سوخت تمام سوختم و ذوقِ سوخت باقیست
وادی میں پرائیویٹ سیکٹر موجود ہی نہیں اور ا س کی طرف بھی بوجوہ رجحان نہیں ہے۔ ہندوستا ن کی دیگر ریاستوں میں بڑی بڑی نجی کمپنیاں قائم ہیں اور پڑھے لکھے ، کم پڑھے لکھے یہاں تک کہ انپڑھ شہری بھی اپنی روزی روٹی کمانے کے اہل بنائے جاتے ہیں۔ لیکن وادی میں نجی و نیم سرکاری کمپنیوں کو رواج نہ دیا گیا۔ اس حوالے سے سرکار ہمیشہ عدم دلچسپی کا مظاہر ہ کرتی رہی ہے۔ ہمیشہ ایسے منصوبوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ، نتیجتاً بے روزگاری کا ایک لامتناہی سلسلہ وادی کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ہر سوایک مہیب سا سماں ، نوجوان طبقہ اپنے مستقبل کو تاریک دیکھ رہے ہیں اور حکمران اپنے ذاتی فوائد کے حصول میں مگن۔ زندہ قومیں ناگفتہ بہ حالات میں بھی اپنے مستقبل کو روشن کرنے کی سعی میں مصروف رہتی ہیں۔ جموں و کشمیر کے اہل ثروت افراد کو پیش قدمی کر کے بے روزگاری کے اس مرض کی دوا کرنی چاہئے اور معیاری پرائیویٹ سیکٹرزقائم کرکے بے روزگاری کوکم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ علاوہ ازیں حکمرانوں کو بھی ہوش کے ناخن لے کرعوام سے کئے گئے وعدوں کا ایفاء کرکے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے ایسے پروگرامز بنانے چاہئیں جن سے نہ صرف وہ روزگار کمانے کے قابل ہوں بلکہ وہ خود کفیل بھی ہوں۔
(مضمون نگار سینٹر ریسرچ اینڈ پالیسی سٹڈیز بارہمولہ کے کواردی نیٹر ہیں)
[email protected]