جمعہ اور نماز جمعہ میں دینی و دُنیوی فوائد

آئی اےقادری 

 

نمازوں کو چھوڑ دینا گناہ کبیرہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ قرآنِ مجید میں الله رب العزت ارشاد فرماتا ہے کہ قیامت کے دن جب جہنمیوں سے جنتی لوگ پوچھیں گے کہ تم لوگوں کو کون سا عمل جہنم میں لے گیا تو جہنمی لوگ نہایت افسوس اور حسرت کے ساتھ یہ جواب دیں گے کہ ’’ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور مسکین کو کھانا نہ دیتے تھے اور بیہودہ سوچ اور بکواس کرتے تھے اور ہم انصاف کے دن کو جھٹلاتے رہے یہاں تک کہ ہمیں موت آئی بکواس کرنے والوں کے ساتھ۔‘‘ (سورہ مدثر/رکوع 2)

دوسری آیت میں ارشاد فرماتا ہے کہ ’’ان نمازیوں کے لئے خرابی ہے جو اپنی نمازوں کو بھول بیٹھے ہیں‘‘۔

ان کے علاوہ قرآن مجید کی بہت سی آیتوں اور حدیثوں میں آیا ہے کہ نماز چھوڑ دینا شدید معصیت اور گناہ کبیرہ ہے ۔احادیث کی روشنی میں جس نے نماز ترک کی ،اُس نے کافر کا کام کیا۔

حضرتِ بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ وہ عہد جو ہمارے اور دوسرے لوگوں کے درمیان ہے، وہ نماز ہے۔ تو جس نے نماز کو چھوڑ دیا ،اُس نے کافر کا کام کیا- ( مشکوٰۃ/جلد اول/ صفحہ 58)

حضرت عبد الله بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے نماز کا ذکر کرتے ہوئے ایک دن یہ ارشاد فرمایا کہ’’ جو شخص نماز کو پابندی کے ساتھ پڑھے گا ،یہ نماز اس کے لئے نور اور برہان اور نجات ہوگی، اور جو پابندی کے ساتھ نہ پڑھے گا، نہ اس کے لئے نور ہوگانہ برہان ہوگی نہ نجات ہوگی اور وہ قیامت کے دن قارون و فرعون و ہامان وابی بن خلف کافروں کے ساتھ ہوگا‘‘۔ (مشکوٰۃ شریف/ جلد اول۔ صفحہ 59) حضرت عبد الله بن شفیق کہتے ہیں کہ رسولِ کریمؐ کسی عمل کے چھوڑنے کو کفر نہیں سمجھتے تھے، سوا نماز کے۔ ( مشکات شریف/ جلد اول/ صفحہ 59)

حضرتِ ابو درداء ؓ نے کہا کہ مجھ کو میرے خلیل نبی ؐ نے یہ وصیت کی ہے کہ تم شرک نہ کرنا، اگرچہ تم ٹکڑے ٹکڑے کاٹ ڈالے جاؤ، اگرچہ تم جلا دیئے جاؤ اور جان بوجھ کر فرض نماز کو نہ چھوڑنا، کیونکہ جو نماز کو قصداً چھوڑ دے گا، اس کے لئے امان ختم ہو جائے گی۔ اور تم شراب نہ پینا اس لئے کہ وہ ہر برائی کی کنجی ہے۔ ( مشکوٰۃ شریف/جلد اول/صفحہ 59)

مذکورہ بالا احادیث میں سے حدیث نمبر دو کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح قارون و فرعون و ہامان و ابی خلف وغیرہ کفار جہنم میں جائیں گے، اسی طرح نماز چھوڑ دینے والا مسلمان بھی جہنم میں جائے گا۔ یہ اور بات ہے کہ کفار تو ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے اور ان لوگوں کو بہت سخت عذاب دیا جائے گا اور بے نمازی مسلمان ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا بلکہ اپنے گناہوں کے برابر عذاب پاکر بھر جہنم سے نکال کر جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ بہت سی ایسی حدیثیں آئی ہیں جن کا ظاہر مطلب یہ ہے کہ قصداً نماز چھوڑ دینا کفر ہے اور بعض صحابہ کرام مثلاً امیر المومنین حضرت فاروق اعظم ؓ، عبد الرحمٰن بن عوفؓ، عبد الله بن مسعودؓ، عبد الله بن عباسؓ، جابر بن عبد اللهؓ، معاذ بن جبل ؓ، ابو ہریرہؓ، ابو درداءؓ کا یہی مذہب تھا اور بعض فقہ کے اماموں مثلاً امام احمد و اسحق بن راہویہ ،و عبد الله بن مبارک و امام نخی کا بھی یہی مذہب تھا۔ اگرچہ ہ امام ابو حنیفہ اور دوسرے آئمہ بہت سے اصحاب نماز ترک کرنے والے کو کافر نہیں کہتے، پھر بھی یہ کیا چھوٹی بات ہے کہ ان جلیل القدر حضرات کے نزدیک قصداً نماز چھوڑنے والا کافر ہے۔ ( بہار شریعت/جلد تین/صفحہ 10)

نماز فرضِ عین ہے۔ اس کی فرضیت کا منکر کافر ہے اور جو قصداً نماز چھوڑ دے ،اگرچہ ایک ہی وقت کی ہو، وہ فاسق ہے اور جو بالکل نماز نہ پڑھتا ہو، قاضی اسلام اس کو قید کردے، یہاں تک کہ توبہ کرے اور نماز پڑھنے لگے بلکہ حضرتِ امام مالک ؒو شافعیؒ و احمد ؒ کے نزدیک سلطان ِاسلام کو یہ حکم ہے کہ کہ وہ بالکل نماز نہ پڑھنے والے کو قتل کرادے۔ (بہار شریعت/جلد 3/صفحہ 10)

یوں تو ہر نماز کو چھوڑنا گناہ کبیرہ اور جہنم میں جانے کا سبب ہے لیکن جمعہ کی نماز چھوڑ دینے پر خصوصیت کے ساتھ چند خاص وعیدیں بھی وارد ہوئی ہیں۔ قرآن مجید میں الله رب العزت ارشاد فرماتا ہے:

يا ايها الذين امنوا إذا نودى للصلؤة من يوم الجمعة فاسعو إلى ذكر الله و ذرو البيع(سورہ جمعہ/ رکوع 2)

احادیث میں بھی اس کی تاکید اور اس کے چھوڑنے پر وعید ِشدید آئی ہے۔ حضرتِ ابن عمرؓ و ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ہم دونوں نے ممبر پر رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ لوگ جمعہ کو چھوڑنے سے باز رہیں ،ورنہ الله تعالیٰ ان کے دلوں پر ضرور ایسی مہر لگا دے گا کہ وہ یقیناً غافلین میں سے ہو جائیں گے۔( مشکوٰۃ، جلد اول، صفحہ 121)

حضرتِ ابو جعد ضمری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللهؐ نے فرمایاکہ’’ جو شخص سستی سے تین جمعہ کو چھوڑ دے گا، الله تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دے گا‘‘۔(مشکوٰۃ، جلد اول،صفحہ 121)حضرتِ طارق ابنِ شہابؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ جماعت کے ساتھ پڑھنا ہر مسلمان پر ضروری ہے چار شخصوں کے سوا کہ ان لوگوں پر جمعہ پڑھنا ضروری نہیں۔ غلام، عورت، بچہ، بیمار۔(مشکوٰۃ،جلد اول،صفحہ 121) حضرتِ ابنِ عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس ؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص بلا کسی عذر کے جمعہ چھوڑ دے، اللّٰہ تعالیٰ اس کو ایسی کتاب میں منافق لکھ دے گا جو نہ مٹائی جائے گی نہ بدلی جائے گی۔(مشکوٰۃ،جلد اول،صفحہ 121)حضرتِ ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللهؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے چار جمعوں کو بلا کسی عذر کے چھوڑ دیا، تو اس نے اسلام کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا۔(کنزالعمال،جلد۷،صفحہ ۵۱۸)

جماعت واجب ہےاور بلا کسی شرعی وجہ کے جماعت چھوڑنے والا گناہگار ،فاسق اور مردود الشہادہ ہے۔ جماعت چھوڑنے والے کے بارے میں حضورِ اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے غیظ و غضب کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ میں اس ذات کی قسم کھاتا ہوں جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ بیشک میں نے یہ ارادہ کر لیا ہے کہ لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں، پھر میں نماز قائم کرنے کا حکم دوں، اور نماز کے لئے اذان کہی جائے، پھر میں ایک شخص کو امامت کرنے کا حکم دوں، اور وہ امامت کرے ،پھر میں جماعت سے الگ رہنے والوں کے پاس جاکر ان کے گھروں کو اُن کے اوپر جلا دوں‘‘۔ (بخاری شریف،جلد اول،صفحہ 89)

حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ہم لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی تو سلام پھیرنے کے بعد آپؐ نے فرمایا کہ کیا فلاں حاضر ہے تو لوگوں نے کہا کہ نہیں ۔پھر فرمایا کہ فلاں حاضر ہے، تو لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ تو ارشاد فرمایا کہ یہ دو نمازیں( فجر و عشاء) منافقین پر بہت بھاری ہیں ،اگر تم لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ ان دونوں نمازوں کا کیا اور کتنا ثواب ہے تو تم لوگ اپنے گھٹنوں پر گھسٹے ہوئے ان دونوں نمازوں میں آتے، پہلی صف فرشتوں کی صف کے مثل ہے ۔اگر تم لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ اس کی کیا فضیلت ہے تو تم لوگ جھپٹ کر جلدی سے اس میں آتے اور یقین رکھو کہ ایک آدمی کی نماز ایک آدمی کے ساتھ اس کے اکیلے نماز پڑھنے سے بہت اچھی ہے اور جماعت میں جس قدر زیادہ آدمی ہوں، یہ الله رب العزت کو بہت پسند ہے۔(مشکوٰۃ۔ جلد اول،صفحہ 96)ایک روایت میں یہ ہے کہ جو اس بات سے خوش ہو کہ وہ کل قیامت کے دن مسلمان ہونے کی حالت میں اللّٰہ تعالیٰ سے ملاقات کرے تو اس کو لازم ہے کہ وہ نمازوں کو وہاں پڑھے جہاں اذان دی گئی ہو، کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کے لئے ہدایت کی سنتیں شریعت میں رکھی ہیں، اور نماز با جماعت ہدایت کی سنتوں میں سے ہیں ،اگر تم لوگ اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو گے، جس طرح جماعت سے بچھڑنے والا اپنے گھر میں نماز پڑھ لیتا ہے۔تو تم لوگ اپنے نبیؐ کی سنت کو چھوڑنے والے ہو جاؤ گے اور اگر تم لوگوں نے اپنے نبی ؐکی سنت کو چھوڑ دیا تو یقیناً تم لوگ گمراہی میں پڑ جاؤ گے۔ جو آدمی اچھی طرح وضو کرکے مسجد کا قصد کرتاہے تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے لئے ہر قدم پر ایک نیکی لکھ دیتا ہے، ہر قدم کے بدلے ایک درجہ بلند دیتا ہے اور ایک گناہ معاف کر دیتا ہے۔ اور تم لوگ یقین مانو کہ ہم نے اپنے کو اس حال میں دیکھا ہے کہ جماعت سے وہی آدمی بچھڑتا تھا جو ایسا منافق ہوتا تھا کہ اس کا نفاق سب کو معلوم تھا اور بعض لوگ تو دو آدمیوں کے بیچ میں چلا کر لائے جاتےتھے۔ یہاں تک کہ وہ صف میں کھڑے کردئیے جاتے تھے۔(مشکوٰۃ شریف۔جلد اول،صفحہ 96)

حضرتِ حضرت عثمان غنیؓ سے روایت ہے کہ جس کو اذان نے مسجد میں پالیا، پھر وہ مسجد سے نکل گیا، حالانکہ حاجت سے بھی نہیں نکلا ہے اور پھر مسجد میں لوٹ کر آنے کا ارادہ بھی نہیں رکھتا ہے تو وہ شخص منافق ہے۔(مشکوٰۃ شریف۔جلد اول،صفحہ 97)حضرتِ ابوبکر بن سلمانؓ سے روایت ہے کہ امیر المومنین حضرت عمرؓ نے حضرتِ سلیمان ؓکو صبح کی نماز میں مسجد کے اندر نہیں پایا، اور آپ صبح ہی بازار گئے اور حضرت سلیمانؓ کا مکان مسجد اور بازار کے درمیان میں تھا تو امیر المومنین نے حضرتِ سلیمانؓ کی ماں حضرتِ شفاء ؓ سے فرمایا کہ میں نے صبح کی نماز میں سلیمان کو نہیں دیکھا۔ تو انہوں نے کہا کہ کہ وہ رات بھر نماز پڑھتا رہا ہے، پھر اس کی آنکھیں اس پر غالب ہوگئی اور وہ سو گیا۔ تو امیر المومنین حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں صبح کی نماز جماعت سے پڑھوں، یہ مجھے ساری رات نماز نفل پڑھنے سے زیادہ محبوب ہے۔( مشکوٰۃ۔ جلد اول۔صفحہ 97)

یوم جمعہ کے فضائل و آداب مختلف احادیث سے ثابت ہے کہ جمعہ کا دن سید الایام ہے اور الله رب العزت کے نزدیک سب دنوں کے مقابلے اشرف و مکرم اور معظم ہے۔ جمعہ کے دن کے پانچ فضائل ہیں: اسی دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے،اسی دن حضرت آدم علیہ السلام زمین پر آئے،اسی دن آپ نے وفات پائی ،اس دن میں ایک ساعت ایسی ہے کہ دعا قبول ہوتی ہے بشرطیکہ جائز ہو،اسی دن میں قیامت ہوگی۔ حضرتِ سلمان ؓسے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی الله علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا جو بندہ جمعہ کے دن غسل کرتا ہے،خوشبو لگاتا ہے،بالوں میں کنگھی کرتا ہے،لباس اور بدن کو معطر کرتا ہے،خطبہ نہایت خاموشی سے سنتا ہے اور نماز پڑھتا ہے، اس کے ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے تمام گناہ بخشے جاتے ہیں۔ ( بخاری شریف)

جمعہ کے دن اور نماز جمعہ میں جہاں بے شمار دینی و دنیاوی فوائد ہیں ،وہیں اس کا ترک کرنا بھی باعثِ ذلت ورسوائی اور گمراہیوں و مصیبتوں کا موجب ہے۔ اصل میں دیکھا جائے تو ترک جمعہ مسلمان کی دینی موت ہے۔ چنانچہ رسول اللّٰہؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان تین جمعہ بلا عذر،غفلت و سستی سے ترک کردے تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے قلب پر مہر کر دیتا ہے۔ حضرتِ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جو شخص بغیر کسی عذر کے تین جمعہ چھوڑ دیتا ہے وہ ایک ایسی کتاب میں منافق لکھا جاتاہے کہ پھر نہ یہ لکھا مٹے گا اور نہ تبدیل ہوگا۔

جمعہ کے خطبے کا اصل مقصد یہی ہے کہ اہل دین کو مذہبی احکام سے واقفیت ہو جائے۔ میری سمجھ میں یہی آتا ہے کہ آدمی اس وقت تک عمل پیرا نہیں ہو سکتا جب تک اس کو معلومات فراہم نہ ہوں۔ دنیا کے کسی مذہب نے بھی لوگوں تک احکام پہچانے کا وہ انتظام نہیں کیا جو مذہبِ اسلام نے کیا ہے۔ خطبہ کی اصل غرض و غایت یہی ہے کہ لوگوں کو مخاطب کر کے ان کو نصیحت کے مضامین سنائیں جائیں جس سے لوگوں کی اخلاقی و روحانی حالت سدھر جائے۔ لوگوں پر لازم ہے کہ وہ خطبہ کو سکون سے چپ چاپ رہ کر موئدب سنیں۔ کیا کوئی ایسا موئدب اجتماع دنیا میں کہیں ملتا ہے جیسا کہ امت مسلمہ میں ہے؟

خطبہ کا اصل مقصد اصلاح معاشرہ اور ترقی ملت ہے۔ یہ ایک مذہب اسلام کا ہفتہ وار جلسہ ہے جس میں مسلمانوں کو منظم کرنے کا خاص اہتمام ہونا چاہئے۔ لہٰذا خطبہ تو عربی زبان میں ہی دیا جائے تاکہ سنت نبوی پر عمل برقرار رہے لیکن اصلاح ِاُمت کے پیشِ نظر ایک تقریر خطبہ سے پہلے ملکی زبان میں ہونا چاہئے، جس سے اصلاح ملت کا کام لیا جا سکے۔

[email protected]