جعلی ادویات کی فروخت دہشت گردی کے مترادف فکرو ادراک

منظور الہٰی ۔ترال کشمیر
 انسانی صحت کی بہتری کے لیے جہاں ہر سُو یہی سُننے میں آرہا ہےکہ صحت کی دیکھ ریکھ کرنا انسان کا اولین فریضہ ہے،وہیں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ’’ جان ہے تو جہاں ہے۔‘‘ دنیا کا ہر ایک انسان یہ سمجھتا ہے کہ صحت کی بہتری کے لئے جہاں اچھی غذائیںضروری ہیں،وہیں صحت کی برقراری کے لئے اچھی اور معیاری ادویات کا استعمال بھی لازمی ہے، تاکہ صحت محفوظ رہ سکے۔ دنیا میںایسا کوئی بھی انسان نہیں ہوگا جو صحت کو نقصان پہنچانے کے لیے کسی جعلی ،غیر معیاری اور مضر رساں دواکا استعمال کرنا چاہے گا ۔لیکن اس ٹیکنالوجی یافتہ دور میں دنیا کے کئی ممالک میں غیر معیاری،ناقص اور مضرِصحت ادویات کا کاروبار اور استعمال عصرِ حاضرمیں ایک بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔جبکہ جموں و کشمیر ،خصوصاً وادیٗ کشمیرمیں نقلی ادویات کا کاروبار اور استعمال بڑے پیمانےپر جاری و ساری ہے۔ہر نُکڑ ،ہر سڑک اورہر بازار میں فروخت ہو رہی نقلی ادویات کی وجہ سے انسانی جانوں کے لئے زبردست خطرے کا لاحق بن چکا ہے۔ لوگ بیماریوں سے شفا یاب ہونے، جان بچانے اور صحت یاب ہونے کے لئے جو ادویات استعمال کرتے ہیں،وہ زیادہ تر غیر معیاری اور جعلی ہوتی ہیں،جن کے استعمال سے انسان نہ صرف دوسری کئی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے بلکہ بعض بیماروں کی اموات کا بھی سبب بن جاتی ہیں۔ظاہر ہے کہ جب کوئی انسان، انسانیت اور احساس کےجذبے سے عاری ہوجاتا ہے تو پھر وہ  نہ صرف حیوان بن جاتاہے بلکہ  درندے سے بدتر ہوجاتا ہے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک شیر دوسرے شیر اور ایک کُتّا دوسرے کُتّے کا گوشت نہیں کھاتا ہے، مگر افسوس کہ انسان ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچنے سے بھی نہیں کتراتا ہے۔ عہدِ جہالت میں لوگ صرف اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کیا کرتے تھے مگر آج کے اس جدید دور میں طاقتور مافیا گروہ سیدھے سادے،معصوم عام لوگوں کو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ادویات اور صحت کے شعبہ سے وابستہ متعدد لوگ زندگی بچانے کی بجائے زندگیاں چھین رہے ہیں۔ انسان ہی انسانی زندگی پر حملہ آور ہو گیا ہے، نقلی اور غیر معیاری ادویات کی خرید و فروخت سے جوانسان اپنی کاروبار کو فروغ دے رہا ہے وہ اس بات سے بالکل عاری ہےکہ اُس کےاِس گھناونے،ناجائز اور انسان دشمن کاروبار کی وجہ سے انسانی جانوں کا ستیا ناس ہورہا ہے،گویااس طرح کے طرزِ عمل سے ایک انسان دوسرے انسانوں پر قاتلانہ حملہ کررہا ہےاور عام لوگوں کی معصوم زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کرکے اُنہیں خطرے میں ڈال رہا ہے۔ بدقسمتی سے مادہ پرستی اور نفسانفسی نے انسانی قدروں، رشتوں اور حلال و حرام میں تمیز و تفریق کرنے کی حِس چاٹ کھائی ہے۔ ہر کوئی کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے لئے کے لئے شارٹ کٹ ڈھونڈ رہا ہے۔ جس کے لئے وہ کسی بھی طرح کاکوئی بھی ناجائز طریقہ ٔ کار اختیار کرنے میں کسی قسم کی شرمندگی محسوس نہیں کررہا ہے۔ پرانے عہد کے لوگ اگر کوئی گناہ کرتے تھے تو وہ چھُپ کرکرتے تھے، مگر اب گناہوں کی بھی تشہیر کی جاتی ہے۔ آج دنیا سمیت کشمیر میں بھی رشوت اور جھوٹ کا بازار گرم ہے، ہرطرف جعلسازی کا دور دورہ ہے۔ بازاروں میں جعلی کرنسی نوٹوں کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی جعلی مصنوعات، جعلی مشروبات اور منشیات کھلے عام دستیاب ہیں۔ بغور دیکھا جائے توکشمیر اب نقلی ادویات کے خرید و فرخت اوروسیع پیمانےپر استعمال کی ایک بڑی منڈی بن گئی ہے۔ لوگوں کو دھونکہ میں لاکر یہ غیر معیاری ادویات کھلے عام فروخت ہو رہےہیں اور اس کو  فروخت کرنےوالے تاجروں اور دکانداروں کے لئے جعلی ادویات کا کاروبار زبردست منافع بخش بن چکا ہے۔ جن کا پردہ فاش کرنے کے لیے ابھی تک کوئی بھی فرد مرد ِ آہن کی شکل میں سامنے نہیں آرہا ہے ۔جبکہ حکومت اور متعلقہ محکموںکی مجرمانہ غفلت کے نتیجہ میں جعلی ادویات سے وابستہ بے ضمیر لالچی عناصر لاکھوں اور کروڑوں روپے کمارہے ہیں۔
  یہ بھی کہا جاتا ہےکہ سرکاری ہسپتالوںکو سپلائی ہونے والے ادویات کا مخصوص حصہ چور بازاری میں فروخت کیا جارہا ہےاور لاچار و بے بس مریضوں کو بازاروں سے سے جعلی ادویات خریدنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔اس طرح جہاں میڈیکل شاپوں پر جعلی ادویات کا کاروبار زوروں پر ہے وہیں محلوں اور گلیوں میں عطائی ڈاکٹروں کی بھی بھرمار ہے،جو کہ حکومت اور متعلقہ صحت اداروں کی کمٹمنٹ اور کارکردگی پرایک بڑا سوالیہ نشان لگارہا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے شہریوں کو مختلف مافیاز کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔جوانسان پہلے سے ہی کسی مرض سے لڑ رہا ہوتا ہے،وہ اِسی اُمید کے ساتھ بازار میں ادویات خریدنے جاتا ہے تاکہ جلد از جلد شفا یاب ہو جائے۔لیکن اُسے کیا معلوم جو دوائی اُس نے خریدی ہے،وہ اُس کے لئے نہ صرف مضر بلکہ مہلک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ان جعلی اور ناقص دوائوں سے وہ کئی اور بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔بغور دیکھا جائے تو یہ صورت حال انسانی جانوں پر ایک وحشیانہ حملہ کے مترادف ہے،جو کسی بھی صورت میں دہشت گردی سے کم نہیں ہے۔افسوس ناک اور تعجب خیز امر یہ ہے کہ اس ساری صورت حال کی آگہی کے بعد بھی یہ جعلی ادویات اس وقت بھی بازاروں میں بنا کسی خوف و ڈر کے فروخت کی جارہی ہیں اور کشمیر کے طول و ارض میں موجود ادویات کی چھوٹی بڑی دکانوں پر دستیاب ہیں۔آئے روز اس معاملے میں شکایتیں آتی رہتی ہیں کہ اب نزلہ، زکام، کھانسی کے کے لئے بھی جو ادویات فروخت ہورہی ہیں،وہ بھی جعلی اور غیر معیاری ہوتی ہیں۔جن کے استعمال سے دن بہ دن مرض بڑھتے جارہے ہیںاور مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ بھی ہے کہ اِن ادویات کو تجویز کرنے والے مخصوص ذہنیت کے لوگ ،ان جعلی دوا ساز کمپنیوں ،ایجنٹوں،ا سٹاکسٹوں اور دوسرے منسک لوگوں کے ساتھ ملی بھگت کے تحت ناجائز دولت کے انبار جمع کر رہے ہیں اور مریضوں کی صحت و سلامتی اور بقاء کے ساتھ مجرمانہ کھلواڑ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کررہے ہیں۔ انسانی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کرنےکے مرتکب ہوکر بھی وہ کسی قانون کی زد میں نہیں آرہے ہیں، جو اس مکرو اور ہلاکت خیز دھندے سے وابستہ لوگوں کے لئے حوصلہ افزائی کا باعث بن رہا ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ یو ٹی جموں و کشمیر کی انتظامیہ ،خصوصاً محکمہ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے ذمہ دارحکام، جموں کشمیر کے بازاروں کی طرف ٹیمیں روانہ کرائیں، جو اِن جعلی ادویات بنانے اور بیچنے والوں کے خلاف کارروائی کر سکیں۔ انتظامیہ اِن جعلی ادویات کی تیاری اور تجارت کی روک تھام کے لئے موثر اقدامات کرے اور اس انسان دشمن کاروبار سے وابستہ درندوں کے خلاف سخت ایکشن لے، جو معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے سے باز نہیں آتے۔سماج کے باشعور افراد سے بھی عرضداشت ہے کہ وہ اس طرح کی دوائیوں کو استعمال کرنے پہلے ڈاکٹروں سے چیک کرائیں اور پھر ڈاکٹر کے مشورے پر ہی ان کا استعمال کریں تاکہ ان نقلی ادویات فروخت اور کاروبار کرنے والے مجرموں کا پردہ فاش ہو سکے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ انتظامیہ اس مسئلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرےاور فی الفور شہر اور دیہات کے گلی، کوچوں میں موجودادویات کی دکانوں کی چیکنگ کرائیںاور ان لوگوں کے خلاف سخت قانونی چارہ جوئی کی جائےجو نقلی اور ناقص ادویات کی خرید و فروخت میں ملوث پائےجائیں۔