جدید دور میں قدیم دور کی طرزِ تعلیم روئیداد

نعیمہ اکرم ۔پونچھ

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اقوام و افراد کی ترقی کا انحصار تعلیم پر ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر معاشرہ اپنے نظام تعلیم کی ترقی کے لئے ہمیشہ کوشش کرتا ہے۔دراصل سماج اور معاشرہ کی ترقی کا ملک کی ترقی میں اہم کردارہوتاہے۔ ترقی کی اس عمارت کا اہم ستون تعلیم ہی ہے۔ اس کے لئے ملک اور ریاستوں میں تمام نظام سے بہتر انتظامات ہونا اشد ضرورت ہوتی ہے۔ہمارا ملک ہندوستان ایک جمہوری ملک ہوتے ہوئے بھی آج کے اس دور جدید میں اس کا تعلیمی نظام دو حصوں میں بٹ چکا ہے۔ امیروں کی تعلیم اور غریبوں کی تعلیم۔حالانکہ دونوں تعلیمی اداروں سے ہی میسر ہوتی ہے۔ لیکن امیروں کے بچوں کے لئے بہترین نظام تعلیم ہوتاہے جبکہ غریبوں کے بچوں کے لئے نظام تعلیم برائے نام ہوتاہے۔ جس کی جیتی جاگتی مثال جموں وکشمیر کے ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے گاوں اڑائی ہائی اسکول ہے۔اس اسکول کی بنیاد 1959 میں پرائیمری اسکول کے طور پر رکھی گئی تھی۔گذشتہ 63سالوں میں اسے پرائیمری سے مڈل اور مڈل سے اب براے نام ہائی اسکول کا درجہ دیا جا چکا ہے۔
اس ا سکول میں تعینات انچارج ہیڈ ماسٹر محمد دین سے بات کرنے پر معلوم ہواکہ قیام کے 49سال بعد 2008 میں اسے مڈل اسکول کا درجہ ملا تھا۔جس کے بعد 2015 میں اسے ہائی اسکول کا درجہ مل گیا۔ تب یہاں رمسہ اسکیم کے تحت مڈل اسکول کے عملہ کے علاوہ تین استاد تعینات کئے گئے تھے۔ ایک فزیکل ٹیچر بھی فراہم کیاگیاتھا۔ جس کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ بھی اچھے سے چل رہا تھا۔ اچانک رمسہ اساتذہ کو گھر واپس بھیج دیا گیا۔اس کے علاوہ فزیکل ایجوکیشن ٹیچر بھی واپس کردیاگیا۔وہیں دو اساتذہ کا ٹرانسفر بھی کر دیا گیا۔لیکن اب تک ان کی جگہ کوئی بھی استاد کو تعنات نہیں کیا گیاہے۔اب یہاں مڈل اسکول کا پورا سٹاف بھی نہیں ہے۔ یہی عملہ اسکول ریکارڈ، میڈے میل ودیگر لوازمات کے ساتھ ساتھ اسکول میں زیر تعلیم دس جماعتوں کے تین سو تیس بچوں کے علاوہ نرسری کی کلاسوں کے بچوں کو بھی اپنی بساط کے مطابق روک تھام اور تعلیم دیتے ہیں۔جس کی وجہ سے پچھلے دو سالوں سے بچوں کو مسلسل پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ہیڈ ماسٹر محمد دین کے مطابق ہائی اسکول اڑائی ملکاں میں صرف پانچ اساتذہ تعینات ہیں۔میرے بشمول ماسٹر محمدالطاف،ماسٹر محمد ریاض،ماسٹر آفتاب حسین، اور ماسٹر بشیر احمد شامل ہیں،جبکہ بچوں کی تعداد تقریبا ساڑھے تین سو کے قریب ہے۔
ہائی اسکول اڑائی ملکاں کے اساتذہ محمد ریاض کے مطابق اسکول میں صرف پانچ اساتذہ ہیں جبکہ بچوں کی تعداد تقریباً 300 کے قریب ہے۔ان اساتذہ کو بچوں کو پڑھانا دور کی بات بلکہ سنبھالنا بھی مشکل ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پانچ میں سے دو استاد پرائمری جماعتوں کو پڑھاتے ہیں اور 3 اساتذہ مڈل اور میٹرک کی جماعتوں کو دیکھتے ہیں جبکہ سائنس اور ریاضی پڑھانے والاکوئی استاد نہیں ہے۔ وہیں اسکول میں فزیکل ایجوکیشن کا بھی کوئی ٹیچر نہیں ہے۔اساتذہ کو بچوں کے علاوہ اسکول کے اور بھی بہت سارے کام دیکھنے پڑتے ہیں۔وہیں ہائی کلاسز کے لئے کوئی بھی ٹیچر نہیں ہے۔اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمیں کم سے کم پندرہ اور اساتذہ کی ضرورت ہے۔نہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کا مستقبل خراب ہو سکتا ہے۔ ہائی اسکول اڑائی ملکاں کے ایک اور استاد آفتاب حسین کا بھی کہنا ہے کہ ان کے اسکول میں بھی استاد نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کا بہت بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے سارے کلاسس کو پڑھانا بہت ہی مشکل ہے۔پانچ اساتذہ دس کلاسوں کو کیسے بڑھا سکتے ہیں ؟ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بچوں کا مستقبل بہتر ہو سکتا ہے لیکن اس کے لئے حکومت کی توجہ کی ضرورت ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمیں بچوں کامستقبل سنوارنے کے لیے کچھ اساتذہ کی اشد ضرورت ہے۔اس سلسلے میں ہائی اسکول اڑائی ملکاں کے دسویں جماعت کی طالبہ یاسمین اختر کا کہنا ہے کہ ہمارے مستقبل کے ساتھ سراسر کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔اسکول میں صرف اردو اور انگلش کی کلاسیں ہی ہوتی ہیں۔باقی کسی بھی مضمون کے ٹیچر کے نہیں ہونے کی وجہ سے اسکول میں ہمارا وقت برباد ہوتا ہے۔ ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جہاں ساڑھے تین سو بچوں کے لئے پانچ استاد ہوں وہاں مکمل تعلیم کا خواب کیسے زندہ تعبیر ہوگا؟
اس حوالے سے جب زونل ایجوکیشن آفیسر محمد بشیر سے بات کی گئی توانہوں نے یہ تسلیم کیاکہ بہت سارے اسکولوں میں عملہ کہ قلت ہے۔ ہائی ا سکول اڑائی ملکاں کا اساتذہ کی قلت کا جو معاملہ ہے اسے جب محکمہ کے جوائیٹ ڈائریکٹر کی نوٹس میں لایاگیاتو انہوں نے یہاں تین استاد تعینات کرنے کے حوالے سے کہاتھا۔تاہم ابھی تک اس پرپیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ اب سرکاری حکم نامے کے مطابق ہائی اسکول اڑائی ملکاں میں اٹیچ اساتذہ کو بھی واپس اپنے اصلی مقام پر کرناپڑا۔ اور دو اساتذہ کو یہاں سے اپنے اپنے مقام پر بھیج دیاگیاہے۔جس کی وجہ سے یہاں عملہ کی کافی کمی ہو گئی ہے۔انہوں نے بچوں کی تعداد اور مشکلات کو دیکھتے ہوے یقین دلایا کہ آئند چند روز میں اسکول کا دورہ کرکے یہاں اساتذہ کی کچھ نہ کچھ کمی کو دور کیاجائےگا۔بہرحال جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں بھی دیہی اسکول اساتذہ کو ترسیں تو ایسا لگتا ہے کہ اس دورجدید میں بھی قدیم دور کا تعلیمی نظام چل رہا ہے۔شائد محکمہ تعلیم کو بچوں کو ہو رہی پریشانی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔(چرخہ فیچرس)