جب انسان حد سے گذر جاتا ہے ؟ | انسان کا شیطان بن جانااس کی شکست ہے! فکر وادراک

طارق اعظم کشمیری
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ’’ جس انسان نے خدا کی حدود سے باہر قدم رکھا ،اُس نے اپنے اوپر ہی ظلم کیا ،جو انسان گمراہ ہوگیا اُس کا نقصان وہ خود اٹھائے گا ،اور جس انسان نے ہماری راہ میں کوشش کی ،ہم ان کو اپنا راستہ بتا دیں گے،تمام انسانوں کے لئے خدا کے پیغمبر عمدہ نمونہ ہیں۔‘‘ اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ گرامی ہے،’’جو انسان دوسرے انسان پر رحم نہیں کرتا ،اُس پر رحم نہیں کیا جائے گا ،اللہ کے نزدیک سب سے محبوب انسان وہ ہے جو اس کی مخلوق کے ساتھ بہتر سلوک کرے۔‘‘معلوم ہوا کہ جو انسان بُرائی کا نقصان نہیں جانتا ،وہ اُس کے واقع ہونے سے نہیں بچ سکتا ،کیونکہ انسان کی سرشت میں دانائی کی نسبت حماقت زیادہ بھری ہے،اس لئے اگر انسان چالیس سال کی عمر تک پہنچ کر بھی گناہ نہ چھوڑے اور اپنی سرکشی سے باز نہ آئےتو شیطان اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرتا اور کہتا ہے کہ نجات نہ پانے والے پر میں فدا ہوں۔اسی لئے انسان ہوکر بھی ایسے کام کرتا ہے جس سے انسانیت داغدار ہوجاتی ہے۔
ذرا غور کریں کہ اس حسین ، جمیل اور دلکش کائنات کا خالق ِ و مالک واحد ذات،اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔ جس نے آسمان کو چھت اور زمین کو فرش بنایا ہے۔ نظام ِ کائنات کو چلانے کے لئے ہر وہ چیز تخلیق کی ،جن سے مخلوقات کی ضروریات پوری ہوسکیں۔اپنے مخلوق کے آرام و سکون اور تلاشِ معاش کے لیے دن اوررات بنائے۔ سورج کو النہار کا روشن چراغ اور چاند تاروں کو لیل کے مزین کندیل بنایا۔ رنگ بہ رنگ کوہسار ، سر سبز میدان ، مختلف بولی کرنے والے پرندے ، خاموش دریا اور گرجتے سمندر، قسم قسم کے پھل اور طرح طرح پھول اپنی ذاتِ کریمہ سے تخلیق کیں۔ پھر اسی کائنات میں معصوم الخطا نور سے بنے فرشتوں کو اور آگ سے پیدا کئے گئے جنات کو وجود بخشا۔ لیکن ان دومخلوقات کے درمیان ایک ایسی شہکار کو تخلیق کیا ۔ جسے خود فنکار نے معزز و مقدس کتاب میں جا بجا تعریفیں کیں۔ فرمایا کہ ہم نے انسان کو ایک بہترین صورت میں پیدا کیا، اشرف کا شرف بخش کر اشرف المخلوقات بنایا۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر مبعوث کیا ہےتاکہ کرہ ٔارض پر فتنہ و فساد ، قتل و غارت گری ، چوری چکاری ،ڈکیٹی اور ظلم و ستم کا خاتمہ ہو کے امن و سکون، چین و راحت کا نظام برقرار رہ سکے۔ اسی لئے ہر دور میں اللہ تعالی نے انسان کی فلاح و بہبودی اور ہدایت و نصیحت کے لئے کامل رہبر و رہنما پیغمبروں کا نزول کیا ہے تاکہ لوگ ایک مدلل نقشہ ہدایت پہ چل کر رشد و ہدایت اور فلاحی حاصل کر سکیں۔ لیکن جب یہی انسان حدود و قیود کی سرحد پار کر دیتا ہے، تو درندوں سے زیادہ وحشی اور خوف ناک بن جاتا ہے۔ جسے قرآنِ کریم میں بل ھم اضل کہا گیا ہے۔ کہ جب انسان انسانیت سےگر جاتا ہے تو بے شعور جان دار اس کی نازیبا حرکتیں دیکھ کر حیران و پریشان ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ہم جب دورِ جہالت کے وحشی انسانوں کے کارنامے سنتے ہیں تو سارا بدن غرقِ عرق ہو جاتا ہے، کہ آیا ایسے بھی انسان ہوتے تھے کیا؟جس راستے سے گزرنے والی حاملہ عورت کا پیٹ چاق کرتے تھے ، جو یتیموں کا مال ہڑپ کر کے اپنی بے ہودہ خواہشوں کو پورا کرتے تھے اور بھی نہ جانے وہ لوگ کیا کیا کرتے تھے۔ مگر جب اُس دورِ جہالت کی تواریخ اور اِس دورِ حاضرہ کے روز مرہ واقعات کو امن کی ترازو میں رکھتے ہیں، تو سب سے زیادہ گھٹیا اور افسردہ کن دور، دورِ حاضر ہ ہی دکھائی دیتا ہے۔ کیوں کہ وہ لوگ صرف قتل کرتے تھے ۔لیکن آج کا ایڈوانس انسان پہلے ایک نحیف صنف سے زبردستی سے بدکاری کر کے قتل کردیتا ہے اور پھر اسکے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے تک کرنے میں کوئی عار نہیں دکھاتا ہے۔ اَسْتَغْفِرُ اللّٰه ! شرم ہم کو مگر نہیں آتی۔ بے شک جب انسان پستی میں چلا جاتاہے، تو وہ ساری انسانیت کی کو ہلا کے رکھ دیتا ہے۔ عقل ، سوچ سوچ کر منجمد ہوجاتی ہے کہ ہوس پرستی یا مادیت کی خاطر یہ انسان نماجانور کس حد تک جاکر معصوم لوگوں کا قتل کرتا ہے۔ کیا وہ نہیںجانتے کہ کل اللہ تعالی کے سامنے جواب دہ ہونا ہے۔کیا وہ نہیں جانتے کہ یومِ حساب میں زرے زرے کے بارے میںپوچھ گچھ ہوگی ۔ ہم نے یہاں تک سُنا ہے کہ اگر کسی انسان نے کسی کتّے کو بے وجہ پتھر مارا ہوگا توآخرت میںاُسے اِسکا بدلہ بھی چکانا پڑے گا۔ ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ ظاہری طور ایک نیک صورت عورت نے بلّی کو رسّی سے باندھ رکھا تھا، تو اُس کی اِس حرکت پر اللہ تعالی نے اس کے حق میں جہنم کا فیصلہ سنایا۔جبکہ ایک گناہ گار خاتون کہیں جارہی تھی کہ راستے میں ایک پیاسے کتّے کو دیکھا، اُس کےدل میں خدا کی اس مخلوق پر رحم آیا اور اُسے پانی پلایا۔ اسکی اس رحم دلی پر اللہ تعالی نے اس کے حق میں بخشش کا فیصلہ کیا۔ الله اكبر !یہ جزا ٕ و سزا بے شعور جانوروں کے ساتھ سلوک کرنے پر ملتا ہے۔ تو دوستو! ذرا سوچیںکہ جس انسان کے ساتھ اللہ تعالی محبت کرتا ہو اور جس انسان کے خاطر اس خوبصورت کائنات کو وجود میں لایا ہے اورجس کے لیے جنت تک کی آرائش کر رکھی ہے، اُسی انسان کو ایذا ٕدینے پر اللہ تعالی کتنا ناراض ہوجاتا ہوگا۔ قتل ہونے کی تو بات ہی نہیں۔ حضرت براء بن عازبؓسے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی شخص کا ناحق قتل کرنا، پوری کائنات کا ختم ہو جانے بھی بڑا ہے۔‘‘ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم لوگ بے گناہوں کا قتلِ عام دیکھ کر صرف ہائےوائے ہی کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ ہونا تویہ چاہئےتھا کہ سارے انسان ایک ساتھ آواز اٹھاتے اور مقتول کو انصاف دلا کر ہی دم لیتے ۔ مگر نہیں !ہمارے یہاں فقط سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا تک حمایت محدود رہتی ہے۔ باقی جو ہوگیا، سو گیا۔ آج ایک واردات ہوئی ،کل دوسری ہورہی ہے اور ہائے وائے کا سلسلہ جاری ہے۔
گذشتہ ہفتہ ہماری اس وادی میں پیش آئے انتہائی ہولناک و درد ناک سانحہ نے ساری قوم کو مغموم کردیا ہے۔اس سانحہ سے با ضمیر انسانوں کو جگر ریزہ ریزہ ہوگئے۔ یہاں تک یہاں کی باغیرت اور با حیا نوجوان نسل کے معصوم اور نرم و نازک دلوں کو بُر ی طرح جھنجھوڑ کرکےرکھ دیا ہے۔بذات ِ خوداس سانحہ نے میرے وجودپر بھی لرزہ طاری کرکے ہکا بکا کردیا ہے۔ جب سُنا کہ شہر سرینگر کے قریبی ضلع بڈگام میں ایک درندہ صفت انسان نے صنفِ نازک عارفہ نامی تیس سالہ خاتون کا بہیمانہ طریقے پر قتل کردیا۔ بتایا جاتاہے کہ پہلے اس جوں سالہ خاتون کے ساتھ زبردستی کر کے اسکے دامن ِ عزت کو تار تار کیا گیا تھااورپھر اسے قتل کر کے اس کے جسم کو اعضائوں میں بانٹ کر ٹھکانے لگانے کی کوشش کی گئی۔ یقیناً اس دلخراش واقعہ نے چشمِ فلک کے اشکوں کو تلاطم برپا کیا ہوگا۔ منجمد برفیلے پہاڑوں کو پگھلا کے رکھا ہوگااور جس زمین میں اس بے بس لاش کے ٹکڑوں کو دفنایا ہوگا،وہ بھی وجد میں آگئی ہوگی ۔ یہ تو ایک واقعہ ہے، ایسے بے شمار واقعات ہوئے ہیں اور ہوتے آرہے ہیں، جو اس دورِ حاضرہ کی ناہنجار ی صورت حال میں بستہ ٔ خاموشی میں چھپ جاتے ہیں۔ سحر گری ، چوری ،ڈکیٹی ، رشوت خواری،زنا کاری وغیرہ وغیرہ جو کہ انسانيت کو تکلیف پہنچانے والے خوفناک آلات ہیں۔ معاشرے کے بیشتر لوگ انہی آلات کا استعمال کثرت سے کر رہے ہیں۔کئی تو ایسے بھی ہیں، جو نمازی اور حاجی کاا لقاب بھی اپنے ماتھے پہ سجائےہوئے ہیں۔ لیکن دوسرے لوگوں کو ستم دینے سے باز نہیں آرہےہیں۔ کعبہ خود چکر میں ہے کہ یہ لوگ کس چکر میں ہے، جنہوں نے شرافت کا لباس اوڑھ کر سیدھے سادھے،بے بس اور لاچارلوگوں کو فریب دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ شائد اب زمین دارالانسان نہیںرہی بلکہ درارالوحش ہوگئی ہے۔ہمیں تو یہی محسوس ہورہا ہے کہ دنیا میں صرف دو ’’انسان‘‘ ہی ایسے ہیں جو انسان کہلانے کے حقدار ہیں ایک وہ جو مر چکا ہے اور دوسرا وہ جو ابھی پیدا نہیں ہوا۔بغور دیکھا جائےتو ہماری داستان اب کس داستان میں پہنچ گئی ہے،جو کہ ایک تشویش ناک مرحلہ ہے۔دورِ حاضر میں کتنے اونچے رُتبے سے پھِسل کر اوندھے منہ گر چکا ہے یہ حضرتِ انسان۔ افسوس صد افسوس !۔۔۔ فطرتاًایسے دل دوز حالات تب ہی برپا ہوجاتے ہیں، جب انسان کے دل و دماغ میں آخرت کی فِکر مٹ جاتی ہےتو اس کی سوچ اورسمجھ ہوسِ دنیا اور مادیت پرستی کے چکر میں پڑجاتی ہے ، اس پر ایک قسم کی دیوانگی پیدا ہوجاتی ہے اور اس کا ضبط جنوں تک اس کے قابو میں نہیں رہتا ہے،جس کے نتیجہ میں نہ صرف اس کے دل میںدوسرے انسانوں کے تئیں حسد ، کینہ، بغض ، عداوت اور نفرت بڑھ جاتی ہے بلکہ وہ ایسے بہیمانہ اور گھناونے کام سرَ انجام دینے سے بھی نہیں ہچکچاتا،جن سے انسانیت کانپ جاتی ہے۔گویاوہ انسان نہیں رہتا ہےبلکہ حیوان سے بھی بدتر ہوجاتا ہےاورپھر انسانی شکل و صورت کا درندہ بن جاتا ہے۔ اللہ پاک ہمیں اپنے حفظ و اماں میں رکھیںاورانسان ہونے کے ناطے انسانیت پر چلنے کی توفیق عطا کریں۔ آمین
رابطہ۔ 6006362135
<[email protected]
��������������������