تغافل۔دم بہ دم کیوں؟ | میری بات

سیدہ عطیہ تبسم۔ڈوڈہ
جب لفظ ’’تغافل‘‘ پڑھا جاتا ہے، لکھا جاتا ہے یا سُنا جاتا ہے تو لا شعوری طور پر ہمارے جذبات اور احساسات ذرا سے مدہوش ہو جاتے ہیں ۔ خیالات میں ایک نشہ سا چھانے لگتا ہے ، دل ذرا سا نرم پڑ جاتا ہے۔ تغافل کے ہم معنی کئی الفاظ ہیں ،جیسے بے خبری، کم توجہی یا پھر انگریزی کے کچھ دلکش الفاظ، جیسے Negligence ، hesitation، carelessness وغیرہ ۔ ماناکہ لغت کے اعتبار اس احساس کو کئی الفاظ ادا کر سکتے ہیں ۔ مگر جو جذبہ چاشنی، گہرائی، اور تھرل (thrill) اس لفظ میں ہے، وہ کسی دسرے میں نہیں ہے۔ جب شاعر کو محبوب کی غفلت شعاری کو حسین تر بنانا تھا تو یوں کہ دیا :
کبھی یک بہ یک توجہ کبھی دم بہ دم تغافل
مجھے آزما رہا ہے کوئی رنگ بدل بدل کر
مانا کہ محبت کی بنیاد توجہ اور پرواہ پر ہے مگر تغافل شاید وہ کڑی ہے، جس کے بغیر ’’محبت‘‘ سے ’’عشق‘‘ تک کا سفر محال ہے ۔ آپ کو یہ جان کر حیرانگی ہو گی کہ ’’تغافل ‘‘کو ’’توجہ ‘‘سے عشق کی داستانوں میں اولین درجہ حاصل ہے۔ چونکہ ہر احساس کی قدروقیمت کا اندازہ اس کے متضاد احساس کو محسوس کر کے لگایا جاتا ہے۔ تغافل نہ ہوتا تو توجہ کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔
مجھے لگتا ہے اس تغافل کو ایک فن کی حیثیت سے دیکھنا زیادہ بہتر ہے۔ بس اس فن کی دلکشی کچھ اصول و ضوابط میں پنہاں ہے۔تغافل اگر اَنّا اور خودپرستی سے لبریز ہو تو اس سے بدبو آنے لگتی ہے ۔ جب یہی تغافل عاجزی کی چاشنی میں ڈبویا ہوا ہو، تو اس سے خوشبودار کوئی دوسرا احساس نہیں ہے ۔ شاعر نے اسی دلکش فن کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔؎
عداوتیں تھی، تغافل تھا، رنجشیں تھی مگر
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا بے وفائی نہ تھی
شاید تغافل کو اَنّا سے منسلک کر کے بے وفائی کو رنگ دینا، اس احساس اور فن دونوں کے ساتھ زیادتی ہے ۔ ہمیں جج بن کر فیصلہ سنانے سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ ہر بار تغافل کرنے والا بے وفا اور تغافل سہنے والا بے وفا نہیں ہوتا ہے ۔عاشق ہو یا معشوق، محبوب ہو یا رقیب، ہر شخص اور رشتے کی چہل پہل اور دلکشی فنِ تغافل میں پنہاں ہے۔
[email protected]
���������������