ترکی قیامت خیز زلزلے اور ہم قدرتی آفت سے سبق سیکھنے کی ضرورت

ترکی اور شام میں آئے خوفناک زلزلہ سے اموات کی تعداد بتدریج بڑھ رہی ہے ۔زلزلہ متاثرہ علاقوں کے مناظر رونگٹے کھڑے کردینے والے ہیں ۔کس طرح چندلمحوں میں بے بسائے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوجاتے ہیں ،اس کا ہم نے ایک بار پھر مشاہدہ کیا ۔قدرت کے سامنے انسانی بے بسی کی اس سے بڑی کوئی مثال نہیں دی جاسکتی ہے ۔ترکی اور شام میں اب بحالی اور بازآبادکاری کام زور و شور سے جاری ہے اور پوری دنیا ترکی کی مدد کیلئے سامنے آئی ہے ۔اندازہ لگایا جارہا ہے کہ اموات کی تعداد20ہزار سے متجاوز ہوسکتی ہے کیونکہ اب بیسیوں بستیوں سے ملبہ ہٹانا باقی ہے ۔ترکی میں زلزلہ کی تباہ کاریوںنے ایک بار پھر ساری زندگی کو حرکات شاکولی سے ہونے والی تباہی کو کم سے کم کرنے کو یقینی بنانے پر غور وفکر کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ہمارے یہاں جموںوکشمیر میں بھی گزشتہ چند ماہ سے زلزلوں کی خبریں سامنے آرہی ہیںجن کی نوعیت سنگین نہیں ہوتی ہے اور عمومی طور پر اب تک کسی بڑے نقصان کی خبر سامنے نہیں آئی۔ان زلزلوں کی شدت ریکٹر سکیل پر3سے4کے درمیان ہوتی ہے اور یوں کوئی ان جھٹکوں کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا ہے۔ جموںوکشمیر میں اوسطاًہر ماہ زلزلے کے تین سے چار جھٹکے محسوس کئے جاتے ہیں لیکن حکومتی سطح پر ان دیکھی کرکے مکمل خاموشی اختیارکرلی گئی ہے ۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ انتظامیہ ان حرکات شاقولی کو سرسری لے رہی ہے اور لوگوں کو یہ کہہ کر اضطرابی کیفیت سے باہر نکالنا چاہتی ہے کہ مزید کوئی زلزلہ نہیں آئے گا۔مانا کہ لوگوں کے دلوں سے خوف و دہشت مٹانا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ ہم آتش فشاں کے ڈھیر پر ہیں جو خدا نہ کرے ،کبھی بھی ہمیں نگھل سکتا ہے۔ گزشتہ ایک دو برس کے دوران کشمیراور جموں میں منعقد ہونے والے ورکشاپوں اور سمیناروں میں ماہرین ارضیات نے کشمیرمیں زلزلوں کے حوالہ سے جو انکشافات کئے ،وہ ارباب اقتدار کی نیندیں اچٹ دینے کیلئے کافی ہیں۔ تحقیق کاروںکے مطابق کشمیر کے ہمالیائی سلسلہ میں ایک بڑے پیمانے کا زلزلہ خارج المعیادہو چکا ہے اور اب کسی بھی وقت وادی میں اس قدر شدید زلزلہ آسکتا ہے جو اس خطے کی جغرافیائی ہیت کو کلی طور پر تبدیل کر سکتا ہے۔ماہرین کے مطابق اگر آج سے ہی احتیاطی تدابیر سے کام نہیں لیا گیا تو بھاری پیمانے پر تباہی مچ سکتی ہے۔حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ ان ماہرین کے انتباہ کو سنجیدگی سے لیتی ،لیکن لگتا ہے کہ یہ سب صدا بہ صحرا ہو جاتا ہے کیونکہ اس سے قبل بھی عالمی سطح پر کی گئی ایک تحقیق میں برملا طور پر کہا گیاتھاکہ جموں و کشمیر زلزلوں کے اعتبار سے سیسمک زون4میں آتا ہے جہاں زلزلوں کی شدت ریکٹر سکیل پر 6سے زیادہ ریکارڈ کی جائے گی جبکہ سرینگر شہر کوسب سے خطر ناک زون، 5میں رکھا گیا ہے جہاں زلزلوں کی شدت8سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ تحقیق کے مطابق وادی اور چناب خطہ کا شاید ہی کوئی علاقہ ہوگا جہاں تباہ کن زلزلہ آنے کا اندیشہ نہ ہو،لیکن حقیقت کا ادراک کر کے ہنگامی نوعیت کے اقدامات اٹھا نے کی بجائے حکومت مسلسل سچائی سے آنکھیں چْرارہی ہے جس کے نتیجہ میں کروڑوں لوگ اضطراب کے شکار ہیں۔ایک ایسا خطہ ،جو آتش فشاں کے ڈھیر پر ہو اور جہاں کبھی بھی ہلاکت خیز زلزلہ سے تباہی مچنے کا امکان موجود ہی نہیں بلکہ آنے کو ہو ،وہاں کی حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے ،شایا شان نہیں ہے۔ جموںوکشمیر میں بے تحاشا تعمیرات ہو رہی ہیں اور حکومت کی جانب سے آج تک ایسے تعمیری ضوابط وضع ہی نہیں کئے جا رہے ہیں جن کے عملانے سے زلزلہ کے وقت کم سے کم نقصان ہو تا۔ستم ظریفی کی بات ہے کہ جموںوکشمیر میں ابھی تک ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نام کی تو ہے لیکن عملی طوراس کاکہیں وجود ہی نہیں ہے حالانکہ پورے ہندوستان میں آفات سماوی سے متعلق تمام تحقیق اور احتیاطی اقدامات انہی اتھارٹیوں کے زیر نگین اٹھائے جارہے ہیں۔ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ وادی کشمیر میں ابھی تک حکومت ان علاقوں کی نشاندہی تک نہیں کی گئی ہے جہاں بھونچال کے وقت سب سے زیادہ تباہی مچ جانے کا اندیشہ ہے اور نہ ہی ایسے آلات دستیاب ہیں جوزلزلوں کی تحقیق میں کام آتے جبکہ ابھی تک زلزلاتی تحقیق کیلئے ماہرین کی خدمات بھی طلب نہیں کی گئی ہیںجس کے باعث ابھی تک زلزلوں کے حوالے سے مائیکرو زوننگ اور خاکہ سازی کر نا باقی ہے۔اس پر ستم یہ کہ وادی بھر میں زلزلہ کی شدت برداشت کرنے والے تعمیراتی ڈھانچہ کی عدم موجودگی مستقبل میں بہت بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔چند سال قبل ایک شہر سرینگر میں زلزلہ سے غیر محفوظ عمارتوں کی سروے کی گئی تھی جس کے بعد ایک رپورٹ تیار کی گئی تھی جس میں قریب 2000ایسی عمارتوں کی نشاندہی کی گئی تھی جو غیر محفوظ قرار دی گئی تھیں اور ان میں سے چند ایک عمارتوں کو بعد میں گرایا بھی گیا لیکن انکی جگہ بڑے تعمیراتی کمپلیکس کھڑا کئے گئے۔اس سروے پر بعد میں کوئی عملدر آمد نہیں کیا جاسکا اور وادی بھر میں لگا تاربے ڈھنگی تعمیرات کھڑا ہو رہی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیر وادی میں 80فیصد عمارات زلزلے کیلئے محفوظ نہیںکیونکہ انہیں بنانے کے دوران اس چیز کا کوئی بھی خیال نہیں رکھا گیا ہے کہ یہ زلزلے کے جھٹکے محسوس کر پائیں گی یا نہیں۔صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ترکی کے حالیہ تباہ کن زلزلے حکومت کی نیند اچٹ دینے کیلئے کافی ہونے چاہئیں ۔وقت آگیا ہے کہ جب کاغذی گھوڑے دوڑا نے کی بجائے عملی طور کچھ کر گزرنے کی ضرورت ہے، تاکہ اگر خدا نخواستہ آنے والے دنوںمیں ایسی کوئی حرکت شاقولی جموںو کشمیر کو ہلا ڈالے تو اس وقت کم سے کم جانی اور مالی نقصان اٹھا نا پڑے۔