بے روزگاری۔ غربت و افلاس کا اہم سبب! حال و احوال

سیدہ رباب نقوی۔پونچھ

تیزی سے بڑھتی آبادی کی طرح بے روزگاری بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔دنیا کے چند ترقی یافتہ ملکوںکو چھوڑ کر دنیا کے دیگرممالک میںبے روزگاری کا مسئلہ درپیش ہے۔ اگر بات اپنے ملک کی جائے تو ہندوستان میں بھی یہ مسئلہ ایک سنگین صورت اختیار کر رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت جنوبی ایشیا کا واحد ایسا ملک ہے ،جہاں خواتین کی سربراہی والے گھرانوں میں مردوں کے مقابلے میں غربت وافلاس نمایاں ہے۔ رپورٹ کے مطابق خواتین کی سربراہی والے گھرانوں میں رہنے والے تقریباً 19.7 فیصد لوگ غربت میں زندگی گزار رہے ہیں جبکہ مردوں میں یہ شرح 15.9 فیصد ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ہندوستان کے نوے فیصد غریب لوگ دیہی علاقوں اور دس فیصد شہری علاقوں میں رہتے ہیں۔ جہاںبہار ملک کی سب سے غریب ریاست ہے، وہیں دس ریاستوں میں جھارکھنڈ، میگھالیہ، مدھیہ پردیش، اتر پردیش، آسام، اڈیشہ، چھتیس گڑھ، اروناچل پردیش اور راجستھان شامل ہیں۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سال 2015-16 میں ہندوستان کی ٹاپ دس غریب ترین ریاستوں میں مغربی بنگال وہ واحد ریاست ہے، جو کہ سال 2019-21میں اس فہرست میںدیکھنے کو نہیں ملی۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک غربت سے لڑنے کیلئے کمر بستہ ہے۔
بے روزگاری کی بہت سی وجوہات ہیں ۔ملک کی آبادی میں تیزی سے اضا فہ بے روزگاری کاایک اہم سبب ہے۔جبکہ امراء اور دولت مند لوگوں کے بیشتربچے کام سے جی چراتے ہیں یا پھر پڑھائی بھی عارضی طور پر کر لیتے ہیں۔چونکہ باپ دادا کی جائیداد اور مال و دولت اُن کے لئے کافی ہوتی ہے اسلئے وہ بے روزگار بھٹکتے رہتے ہیں۔ اگرچہ وہ کوئی بھی کام دھندہ آرام سے شروع کرسکتے ہیں،لیکن کام چوری ، اَنّا،تکبُر اور لاپرواہی کے باعث بلا وجہ بے روزگار بنے ہوئے ہیں۔اس کے برعکس جو غریب یا متوسط طبقے کےنوجوان محنت کرکے پڑھائی کرتے ہیں، اعلی تعلیم کرنے کے بعد ایک روشن مستقبل کا خواب آنکھوں میں لئے عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں اور پھر مسلسل جدوجہد کے باوجود بھی کامیابی نہ ملنے پر ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، وہ بے چارے بے روزگار نوجوان غربت وا فلاس جیسے مسائل سے بھی دو چار ہونے لگتے ہیں۔ بے روزگاری کی ذلت سر پر لئے بھٹکتے رہتے ہیں اور در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ظاہر ہے کہ بے روزگاری ایک ایسا مسئلہ ہے،جو دوسرے کئی معاشرتی مسائل کو بھی جنم دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ڈپریشن اور ٹینشن جیسی بیماریاں پیداہوجاتی ہیں،جو انسان کو مایوسی کی طرف لے جاتی ہے اور غربت میں اضافے کی وجہ بن جاتی ہے۔ غریب عوام کے پاس کبھی کھانے کو، کبھی پہننے کو نہیں ہوتا اور ان کے بچے کسی اچھے اسکول میں تعلیم بھی حاصل نہیں کر پاتے۔ جبکہ روزگار کی نایابی سے اچھے اچھے ڈگری یافتہ بیرون ممالک جاکرمزدوری کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ضلع پونچھ سے تعلق رکھنے والے چار بھائیوں کی کہانی یہاںبتانا چاہتی ہوں، جنہوں نے اپنی تعلیم مکمل تو کر دی ہے مگر اس کے باوجود بھی روزگار کی تلاش میں دربدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں، جب میں سب سے بڑے بھائی محمود سے پوچھا تو اس نے اپنا درد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد کی وفات کو چار سال ہو چکے ہیں، جس نے اُن کی زندگی میںبے حد مشکلات پیدا کردیئے ہیں۔جبکہ موجودہ دور میں سب سے بڑا مسئلہ روزگار کا ہےاور ہمارے لئے اب گھر چلانا بہت مشکل بن چکاہے۔دَر دَر بھٹکنے کے باوجود کہیں بھی نوکری نہیں مل رہی ہے۔بقول محمود ، ان کے بھائی سلیمان اور انہوں نے سب انسپکٹر کا امتحان بھی دیا تھا، امتحان بہت اچھا ہوا تھا ،مگراس امتحان پر بھی سٹے لگ چکا ، جس کی وجہ سے انہیں بہت دُکھ سہنا پڑ رہا ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ کرپشن ہے۔ا سی طرح کا ایک اور واقعہ بیان کرتی ہوں۔ ہمارے ہی محلے میں شاہدہ نام کی ایک بہن رہتی ہے ، جن کا کوئی بھائی بہن نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہےکہ بہت محنت و مشقت کے ساتھ اُن کے والد نے ان کی تعلیم مکمل کروائی۔ گریجویشن، بی ایڈ اور پی جی ، کرکے اور بھی امتحان دیئے مگرپھر بھی بے روزگار ہوں۔مایوس اسلئے ہوں کہ کیسے میں اپنے بزرگ ماں باپ کا خیال رکھو سکوں۔خیر حق تو یہ بھی ہے کہ راقم کے خود تین بھائی تعلیم یافتہ ہیں مگر تا ہنوز نوکریوں کی تلاش میں ہیں۔ سیڑی چوہاؔنہ کے ایک بھائی آصف شاہ سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ سرکاری نوکریاں ہم جیسے غریبوں کے لیے نہیں ہوتی اور جب میں نے ان کے بچوں سے سوال کیا کہ آپ اسکول کیوں نہیں جاتے، تو انہوں نے کہا، آپ نے پڑھ کر کیاحاصل کر لیا ہے؟ ان کے گھر میں رہائش پذیر یہ بچے، ایک اپنا گھر بنانے کی بھی خواہش رکھتے ہیں، مگر غربت اور بے روزگاری کی مار سے بے بس باپ کیسے آشیانہ بنا سکتا ہے۔ اس سے معلوم ہورہا ہے کہ بے روزگاری ہی غربت، افلاس اور پسماندگی جیسے مسائل کو جنم دیتی ہے۔ آصف بھائی اور اس کے پھول جیسے بچوں کی بے بسی اور ٹوٹی ہوئی اُمیدوں کو دیکھ کر میرے ذہن میں معاشرے کےکسی شاعر کا یہ درد بھرا شعر آ ہی گیا ۔
بھوک چہروں پہ لئے چاند سے پیارے بچے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے
(چرخہ فیچرس)