بھید بھاؤ کے خاتمہ کے لئے بیداری مہم کی ضرورت اپنا وطن

روبی سرکار،بھوپال

آزادی کے 75 سال بعد بھی ملک کے بیشتر حصوں میںامتیازی سلوک اور اونچ نیچ کی وجہ سے درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے خلاف زیادتیوںاور ناانصافی کا سلسلہ آج بھی جاری ہےاور اس کا شکار زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں۔ مندروں میں عبادت اور رسومات کے حوالے سے ان کے ساتھ ناانصافی کی جاتی ہے۔ مدھیہ پردیش کے ہرداؔ ضلع کے کچھ دیہی علاقوں میں، درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کی خواتین کومندرمیں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ عورتوں سے رسومات کے نام پر پیسے تولیے جاتے ہیں، لیکن عبادت کے لیے مندر میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ جبکہ ملکی آئین کے مطابق اُنہیں مندر یا دوسرے مذہبی مقام میں داخل ہونے سے اگر کوئی روکتا ہے تو یہ قابل سزا جرم ہے۔حال ہی میں، سونم اور جیوتی جیسی کئی نوعمر لڑکیوں کو پجاری نے ہرداؔ کے سندھ کھیڑا گاؤں میں مندر میں داخل ہونے سے روک دیا۔ دراصل وہ دورگا مندر اور شیو مندر میں پوجا کے لیے جانا چاہتی تھی۔ 17 سالہ جیوتی لوچکر نے بتایا کہ پجاری نے ہمیں بتایا کہ آپ لوگ جادو ٹونا کا کام کرتے ہو، گوشت کھاتے ہو اور شراب پیتے ہو، اس لیے مندر آپ جیسے لوگوں کے لیے نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بچپن سے ہمارے ساتھ ایسا ہوتا چلا آ رہا ہے۔ گاؤں کے اونچی ذات کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ایسی خواتین مندر میں داخل ہوتی ہیں تو یہ تباہی ہوگی۔ اس امتیاز کی وجہ سے ہم نے دورگا جی کا مندرالگ سے تعمیر کر لیا۔جہاں ہم عبادت کرتے ہیں۔ جیوتی کے گاؤں سندھ کھیڑامیں درج فہرست ذات کا غلبہ ہے، جو ہرداؔ ضلع سے تقریباً 25 کلومیٹر دور ہے۔
کچھ ایسی ہی کہانی ہرداؔ ہیڈ کوارٹر سے تقریباً 20 کلومیٹر دور ہنڈیا تحصیل کے رہائشی 23 سالہ سنجو موئے کی ہے۔ درج فہرست ذات برادری سے تعلق رکھنے والی سنجو جب گاؤں کے شیو مندر میں داخل ہوگئی تھی تو پورے گاؤں میں کہرام مچ گیا۔ اس گاؤں میں زیادہ تر راجپوت۔گرجر خاندان رہتے ہیں، جو مالی طور پر بھی خوشحال ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ راجپوت اور گُرجرتقریباً ایک ہزار سال پہلے یہاں آباد ہوئے تھے، جب کہ درج فہرست ذاتیں اور قبائلی یہاں صدیوں سے آباد ہیں،اور معاشی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے استحصال کا شکار ہیں۔ سنجو موئے ایم ایس سی پاس ہے اور بیداری کی وجہ سے وہ اس امتیاز پربُرا محسوس کرتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمارے گاؤں میں ہینڈ پمپ سے پانی بھرنے پر بھی امتیاز برتا جاتا ہے۔ درج فہرست ذات کی خواتین اس وقت تک پانی نہیں لے سکتی جب تک کہ اونچی ذات کی خواتین پانی نہ بھریں۔ سنجو کے والد دشرتھ موئے کہتے ہیں کہ قانون اگرچہ ہر جگہ برابر ہے، اس کے باوجود بھی اگر درج فہرست ذات سے تعلق رکھنے والا لڑکا شادی میں گھوڑی پر چڑھتا ہے تو اسے مارا پیٹا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ معاشرے کو قانون ہاتھ میں لینے والوں کی مخالفت کرنی چاہیے لیکن ایسے معاملات میں معاشرہ ہی خاموش رہتا ہے۔
45 سالہ سیما بائی بھی ایک پسماندہ ذات سے تعلق رکھتی ہیںکہ انہیں مندر میں داخل ہونے سے روک دیا جاتاہے۔ اُس سے کہا جاتا ہے کہ وہ مندر میں اگر کسی چیز کو چھوئے تو وہ نجس ہو جاتی ہے، اس سے خدا ناراض ہو گا اور ہمیں بیمارکر دے گا۔ اسی طرح ایس سی برادری کی ایک خاتون دورپتا بائی کا کہنا ہے کہ مندر میں جا کر ہمیں بار بار ذلیل کیا جاتا ہے، ہماری توہین کی جاتی ہے، یہاں تک کہ مار پیٹ بھی کی جاتی ہے۔ دوسری جانب نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گونڈ قبائلی کی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ حال ہی میں ہماری برادری کی ایک خاتون مندر میں پوجا کرنے گئی تھی تو غنڈوں نے اسے زدوکوب کیا۔ جب اس کا شوہر اور 16 سالہ بیٹا مداخلت کرنے آئے تو اُسے اتنا مارا پیٹا گیا کہ وہ پانچ دن تک ہسپتال میں بے ہوش پڑا رہامگرانتظامیہ کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس طرح کے واقعات ہردا کے ہر گاؤں میں ملیں گے۔
اس سلسلے میں مدھیہ پردیش کے قبائلی عجائب گھر کے ڈائریکٹر اور معروف مصنف دھرمیندر پارے کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ جہاں سے بابائے قوم مہاتما گاندھی نے چھوا چھوت کے خاتمے کا پیغام دیا تھا وہاں چھوا چھوت آج بھی جاری ہے۔ گاندھی جی کی تحریک سے یہاں کے ہر برادری کی خواتین مل بیٹھ کر ہر گاؤں میں چرخہ کاتتی تھیں اور تحریک آزادی میں بلا تفریق حصہ لیتی تھیں۔ دوسری جانب سینئر سماجی کارکن گوری شنکر مکاتی کا کہنا ہے کہ یہاں زیادہ تر درج فہرست ذات اور گونڈ قبائلی رہتے ہیں۔ یہ ضلع بنیادی طور پر ان لوگوں کا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ قبائلی کم ہوتے گئے اور باہر سے آنے والے لوگ مستقل طور پر یہاں آباد ہو گئے، کاروبار کرنے لگے اور دولت مند بن کر اب وہ طاقتور ہیں۔ ایڈوکیٹ معین خان کا کہنا ہے کہ نہ صرف مندر میں داخلے بلکہ اسکولوں میں مڈ ڈے میل میں بھی ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ ایک حالیہ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسکول میں دوپہر کے کھانے کے لیے درج فہرست ذات والوں کے استعمال کیے جانے والے برتنوں پر ایک خاص نشان بنایا گیا تھا۔ معاملے نے تول پکڑا تو حکومت نے نوٹس لیا۔ لیکن مندر میں ان کے داخلے کے معاملے پر حکومت اتنی سختی نہیں دکھاتی ہے۔
پوجا گوڑ کہتی ہیں کہ ہمارے گاؤں میں ایس سی، ایس ٹی خواتین کو چڑیل(ڈائن) بھی کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی بچہ بیمار ہو جائے تو اکثر الزام ان خواتین پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ہم پڑھے لکھے لوگ ہیں لیکن ہمارے عقائد آج بھی نہیں بدلے۔ جس سرزمین سے گاندھی جی نے اچھوتا پن کے خلاف آواز بلند کی تھی، اگر آج بھی وہاں یہ سلسلہ جاری ہے تو ملک کے دیگر دیہی علاقوں کی حالت کیا ہوگی، اس کا تصور کرنا مشکل نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے خلاف نہ صرف قانون بنایا جائے بلکہ اس کے خلاف معاشرے میں بیداری بھی پھیلائی جائے۔ یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا ایوارڈ 2022 کے تحت لکھا گیا ہے۔
[email protected]