بچہ ہسپتال کی بمنہ منتقلی اتنی سہولیات کے باوجود شکایات بجا نہیں!

جب سے سرکار نے بالآخر امراض اطفال ہسپتال کو سونہ وار سرینگر سے نو تعمیر شدہ ہسپتال عمارت واقع بمنہ سرینگر منتقل کرنے کا فیصلہ لیا ہے ،کئی حلقوں کی جانب سے دبے الفاظ میں اس منتقلی کی مخالفت کی جارہی ہے اور اس کیلئے ایسے عذرات پیش کئے جارہے ہیں جو سجھ سے بالاتر ہیں۔ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ بادامی باغ کنٹونمنٹ بورڈ کی نیم نگرانی میں جب جی بی پنتھ نام سے یہ بچوں کا واحد ہسپتال سونہ وار میں قائم کیاگیا تو اُس وقت بھی اس منتقلی کی مخالفت ہوئی تھی تاہم منتقلی ہوئی اور اب دہائیوں بعد اس ہسپتال کو وہاں سے بھی منتقل کیاجارہا ہے جو وقت کی ضرورت ہے ۔کون نہیں جانتا کہ سونہ وار بچہ ہسپتال میں جگہ کی انتہائی تنگی تھی اور وہاں ایک گنجان علاقہ میں یہ ہسپتال قائم کیاگیا تھا جہاں نہ صرف لالچوک کے راستے پہنچنا مشکل تھا بلکہ ہسپتال کے اندر مریضوں اورتیمارداروں کو بھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ جگہ انتہائی قلیل تھی ۔حد تو یہ ہے کہ ہسپتال کی اپنی پارکنگ تک نہ تھی اور پھر ہسپتال کے کاریڈور میں کس طرح مریض اور تیماردار بھیڑ بکریوں کی طرح ڈھیرہ ڈالتے تھے ،وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ان مسائل پر میڈیا میں بے شمار خبریں شائع ہوتی رہیں اور ان خبروں میں ہم ہی حکومت کو اس بات کیلئے ہدف تنقید بنارہے ہوتے تھے کہ آخر کیا سوچ کر ایک اہم ہسپتال کو ایسے گنجان اور انتہائی کم جگہ والے علاقہ میں منتقل کیاگیا ہے ۔اب جبکہ سرکار نے مسئلہ کی سنگینی کا نوٹس لیتے ہوئے ہسپتال کو بالآخر منتقل کرنے کا فیصلہ لیا ہے ،تو ایک بار پھر وہی بے تکے عذرات پیش کئے جارہے ہیں جس سے یہ منتقلی رکنے والی نہیں ہے۔
جہاں تک بمنہ میں نئے بچہ ہسپتال کا تعلق ہے تو ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ ہسپتال پانچ سو بستروں پر مشتمل ہے اور اپنی نوعیت کا بہت بڑا ہسپتال ہے جہا ں بیک وقت پانچ سو بچوں کا داخلہ ہوسکتا ہے ۔آج تک ہمیں بچوں کیلئے اتنا بڑا ہسپتال دستیاب نہیں تھا۔اتنا ہی نہیں،اس ہسپتال میں بچوں کیلئے مخصوص امراض کے شعبہ قائم کئے گئے ہیں ۔جیسے ہڈیوں کیلئے الگ شعبہ ہوگا،معدے کیلئے الگ شعبہ ہوگا اور اسی طرح قلب اور دیگر امراض کیلئے الگ شعبہ ہوگا ۔اس کا فائدہ یہ ملے گا کہ اب ایک ہی چھت تلے سبھی امراض میں مبتلا بچوںکا علاج ہوگا ورنہ ایسے پیچیدہ امراض میں مبتلا بچوںکو ہمیں سکمز صورہ منتقل کرنا پڑتا تھا جو پہلے ہی مریضوںکے بوجھ تلے دبا رہتا ہے ۔یوں اگر یہ کہیں کہ یہ بچوں کیلئے ایک سپر سپیشلٹی ہسپتال ہے تو بالکل غلط نہ ہوگا ۔اب اگر کچھ لوگ ایسے ہسپتال کے قیام پر بھی انگلیاں اٹھائیں اور منتقلی کو غلطی قرار دیں تو اُن کی عقل پر ماتم ہی کیاجاسکتا ہے۔
جہاں تک رسائی کاتعلق ہے تو یہ ہسپتال شمالی اور جنوبی کشمیر کیلئے رسائی کے اعتبار سے انتہائی موزون ہے کیونکہ دونوں خطوں کو ہائی وے پکڑ ہی یہا ں پہنچنا ہے اور ہسپتال چونکہ برلب ہائی وے واقع ہے تو یہاں پہنچنا قدرے آسان ہوگا اور ٹریفک جام سے بھی دوچار نہیں ہوناپڑے گا ۔سرینگر شہر کے کچھ علاقوں اور گاندربل ضلع کے ایک حصہ کیلئے کچھ مشکلا ت ہوسکتی ہیں تاہم ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کیلئے بمنہ بچہ ہسپتال تک پہنچنا ناممکن ہو۔اب یہ شکایت کی جارہی ہے کہ لالچوک سے بمنہ ہسپتال تک ٹریفک کم دستیاب ہے تو اس کا تدارک کرنا مشکل نہیںہے اور گاڑیوںکی تعداد تین گنا تک بڑھائی جاسکتی ہے اور یوں شہر باسیوںکیلئے ٹریفک کا مسئلہ ختم ہوسکتا ہے تاہم جنوبی و شمالی کشمیر کیلئے ٹریفک کا کوئی مسئلہ نہیںہے ۔اسی طرح ہسپتال کے مرکزی دروازے کے سامنے ہائی وے پر کوئی فلائی اوور نہیں ہے ،یہ حقیقت ہے اور اس سے حادثہ کا احتمال رہتا ہے تاہم ہمیں حقیقت بھی تسلیم کرلینی چاہئے کہ جی وی سی ہسپتا ل کے باہر بھی سالہاسال تک کوئی فلائی اوور نہیں تھا اور ہسپتال چلتا رہا ۔پھر ضرورت کو سمجھتے ہوئے حکومت نے ہسپتال کے باہر ہائی وے پر ایک فلائنگ پل تعمیر کیا جس کے نتیجہ میں حادثات کے تمام امکانات ختم ہوگئے ۔ اسی طرح جب سرکارنے اس ہسپتال کی تعمیر پر کروڑ ہا روپے خرچ کئے ہیں تو سرکار کیلئے یہ کوئی مشکل کا م نہیں ہے کہ وہ اس ہسپتال کے باہر بھی فلائنگ پل تعمیر کرے تاہم اس کیلئے ہمیں صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔
ہمیں چاہئے کہ ہم ہسپتال کو پہلے منتقل ہونے دیں ۔بلا شبہ کچھ مسائل ہیں تاہم یہ اتنے بھی بڑے مسائل نہیں ہیں کہ حل ہی نہ ہوں۔اس ہسپتال کو بننے میں سالہا سال لگ گئے ۔پہلے اس کیلئے زچہ و بچہ ہسپتال کا منصوبہ بنایاگیا ۔پھر کہاگیا کہ یہ صرف زچگی ہسپتال ہوگا ۔پھر کہاگیا کہ زچگی کے ساتھ ساتھ بچوں کے علاج کی بھی سہولت میسر ہوگی تاہم کچھ حتمی نہیں ہورہا ہے اور بالآخر جب یہ ہسپتال بچوں کے امراض کے علاج کیلئے ہی مخصوص کیاگیا تو یہ کسی بڑی راحت سے کم نہیں ہے کیونکہ کشمیری عوام کو بچوںکے علاج کے حوالہ سے انتہائی مشکلات کا سامنا تھا۔ایسے میں ہمیں منتقلی میںبے تکے عذرات کی آڑ لیکر روڑے اٹکانے کی بجائے اس کی منتقلی کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے اور ساتھ ہی سرکار کو ان مسائل کے حل کیلئے بھی مجبور کرنا چاہئے تاکہ بچوںکو بہتر علاج بھی میسر ہو اور مسائل بھی حل ہوں۔