بچوں کے ساتھ ہمارا رویہ! کیاآپ نے کبھی غور کیا؟

سمینہ اختر۔سرینگر

بچے اللہ کی طرف سے ایک انمول تحفہ ہیں اور پھولوں کی طرح نازک ہوتے ہیں۔ ان کی نہ صرف رکھوالی و آبیاری بلکہ ان کی تربیت بھی بہت خاص توجہ کی طالب ہے۔جس کی مکمل ذمہ داری ماں اور باپ دونوں پر عائد ہوتی ہے چونکہ اکثر باپ زیادہ تر گھر سے باہر ہوتے ہیں، اس لئے بچے کی پرداخت ،شخصیت اور اس کے کردار کی تعمیرو تزمین میں بڑا اور اہم کردار ماں کا ہوتا ہے۔درحقیقت بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہی توہے لیکن آج کل جس وقت بچے کو ماں کی گود کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت مائیں بچوں کو اْستانیوں کی گود میں ڈال دیتی ہیں۔ دو ڈھا ئی برس بچے کی عمر ہی کیا ہوتی ہے، اسے ماں کی محبت چاہیے نہ کہ ٹیچر کی ڈانٹ ڈپٹ۔ غور وفکر کی بات ہے کہ جب ایک ماں اپنے دو یا تین بچوں کو نہیں سنبھال سکتی ہے تو ایک ٹیچر بیس پچیس بچوں کو کیسے پیارو محبت سے سنبھال سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ایک ماں ہی خود اپنے دل پہ پتھر رکھ کر اپنے بچے کو دوسری عورت یا کسی لڑکی(ٹیچر) کی گود میں ڈال دے گی تو دوسرے کے دل میں ایک غیر کے بچہ کے لئے کس طرح کا ،کتنا اور کون سا درد پیدا ہو گا۔ حالانکہ بچوں کی معصومیت کا یہی تو وہ دور ہوتا ہے جب بچے علمیت یا علمی اثرات فوراً قبول کرتے ہیںکیونکہ ان کے معصوم ذہن کورے کاغذ کی مانند ہوتے ہیں اور یہی علمیت یا مخفی اثرات آخر تک ان کی شخصیت کے ہر پہلو سے جھلکتے ہیں۔ آج کل کے دور کی مصروف ماں جب اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ٹی وی میں کارٹون لگا کر خود اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہے تو بچوں کے معصوم ذہنوں میں کارٹوں کریکٹر ایسے سوار ہو جاتے ہیں کہ وہ انسانوں کے بجائے کارٹون کرداروں کو ہی آئیڈیا لائز کرنے لگتے ہیں اور ان جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔مہنگی ترین درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود آج کا بچہ پیچھے کیوں ہے؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ والدین بچوں کو صرف ٹیوشن دلوانے کے چکر میں اسے رٹ طوطا بنا دیتے ہیں کچھ بھی ہو، چاہے جیسے بھی ہو ،پوزیشن فرسٹ ہی آنی چاہیے۔ جس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بچہ سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے اور صرف پوزیشن لانا چاہتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ صرف اسکول اور ٹیوشن پر انحصار نہ کریں بلکہ ان کی پڑھائی پر خود بھی دلچسپی لیں،ان سے پوچھیں آج کیا پڑھا، کیا لکھا۔ اسکول کے پورے دن کے حالات بچے کی زبانی خود سنیں، پورے سال میں صرف ایک بار ہی نہیںبلکہ وقتا فو قتا بچے کے اسکول میں چکر لگائے جائیں۔ اس کی پڑھائی کے بارے میں آگاہ رہیں۔ وہ کن بچوں میں اٹھ بیٹھ رہا ہے، کن بچوں سے دوستی ہے سب پر نظر رکھیں۔دوسری وجہ والدین کی حد سے زیادہ مصروفیت ہے جس کے باعث بچے نظر انداز ہو رہے ہیں، والدین کے پاس اتنا وقت یا اتنی فرصت ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزار سکیں،اُن کے ساتھ اپنی خوشیاں بانٹیں،حقیقی پیار و محبت کا احساس دلائیں، بجائے اس کے کہ وہ اُنہیں ٹی وی،موبائل اور نیٹ کا استعمال کروا کر سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے دنیا کے ساتھ چل رہے ہیںاور تمام جہاںکی خوشیاں بٹور رہے ہیں۔ انھیں اس بات کا ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ ان کے بچے جدید سہولتوں کے سیلاب میں بہہ کر نہ صرف اپنے والدین بلکہ اپنی اصل زندگی، اپنے دین اور اخلاقیات سے دور ہو رہے ہیں۔وہ اس بات کو بھی فراموش کرچکے ہیںکہ بچوں کو با کردار ،دین دار اور باعزت فرد بنانے کے لئے اُن میں مطالعے کا شوق پیدا کریںاور اُنہیں اصلاحی اور دلچسپ کہانیوں پر مبنی کتابوں کی طرف بھی مائل کریں۔ ہمارے یہاں کے معاشرے میںیہ بھی دیکھنے اور سُننے میں آتا ہے کہ زیادہ تر والدین’ کھلاؤ سونے کا نوالا اور دیکھو شیر کی نظر سے‘ کے مقولے پر عمل کرکے اپنے بچے کو مارشل انداز میں ایسی خوفناک نظر سے دیکھتے ہیں کہ بچہ ساری زندگی ڈری سہمی زندگی گزار دیتے ہیں اور والدین کو پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ ان کا بچہ آخر چاہتا کیا ہے کیونکہ غضب ناک نظروں کے سامنے بچے اپنی چاہت کا اظہار بھی نہیں کرپاتا ہے۔اس طرح جب والدین ہی اپنے معصوم اور کمسن بچوں سے اُن کے دِل کی باتیں نہیں سنیں گے تو بچہ گھر سے باہر دلچسپی کے مواقع ڈھونڈتا رہتا ہے،اور اُنہیں گھر سے باہر جہا ں کہیں بھی دوستانہ ،ہمدردانہ یانرمی کا سلوک ملتا ہے وہ وہاں اپنی باتیں بانٹنے لگ جاتے ہیں اور یہ بات بعض اوقات خطرناک بھی ثابت ہوتی ہے، خاص طور پر لڑکیوں کیلئے۔اس صورت حال سے بچنے کے لئے ماں کا کردار زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ وہ اپنی بچیوں سے دوستانہ رویہ رکھیں اور ان کی ہر بات سنیں۔یہ بات یاد رکھئے کہ بچوں کوخوفناک جانوروں کی نظر نہیں بلکہ ایک انسان کی نظر چاہیے۔ جس میں پیار، محبت اور شفقت ہو۔ جب بچوں اور والدین میں دوستی کا تعلق ہوگا تو ایسا بچہ زیادہ پُر اعتماد ہو گا، بہ نسبت اُس بچے کہ جس کے دل میں اپنے والدین کے لئے ایسا خوف اور دہشت بیٹھی ہو ئی ہو کہ جیسے اس کے والدین نہیں، پولیس والے ہوں۔ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ، ہر وقت کی نصیحت اور روک ٹوک سے بچہ والدین سے دور بھاگنے لگتا ہے۔ گھر میں والدین اور اسکول میں ٹیچر کی سختی سے بچے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ اپنے بچوں کو محبت، شفقت اور اپنا وقت دے کر انھیں معاشرے کا خود اعتماد، باشعور، باصلاحیت اور کامیاب فرد بنائیں۔