بٹیا رانی بن کر رہے اور بہو نوکرانی! فکر انگیز

ابوبکر

خدا کرے کہ آپ کی راج دلاری بیٹیاں بیاہ کر جائیں تو سسرال میں رانی بن کر رہیں۔ پلکوں پر بٹھائی جائیں۔ ’’دُودھو نہائیں، پھولیں پھلیں‘‘۔ حالانکہ کہاوت میں ’’پوتوں پھلیں‘‘ کہا گیا ہے۔ یعنی خوب لڑکے پیدا کریں۔ چونکہ بڑے بوڑھوں کا یہ ماننا تھا کہ’’بیٹے ہی دراصل گھر کا چشم و چراغ ہوتے ہیں، موئی بیٹیاں تو پرائی ہوتی ہیں‘‘۔ لہٰذا اسی سڑے گلے رجحان کو مد نظر رکھتے ہوئے بزرگوں نے کہاوت بھی کہہ دی۔ چنانچہ ان جہان دیدہ بزرگوں کی اس عجیب و غریب کہاوت کا کفارہ ادا کرنے کی غرض سے میں نے جان بوجھ کر ’پوتوں پھلیں‘کی جگہ بس’’پھولیں پھلیں‘‘ کہا ہے۔ تاکہ بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان کسی حد تک خلیج کو کم کیا جا سکے، نیز پُوتوں کو بیٹیاں کپوت بھی نہ سمجھیں۔ حالانکہ ابھی بھی ہمارے معاشرے میں بیٹوں کو ہی چشم و چراغ سمجھنے کا منحوس رواج پایا جاتا ہے اور بیٹیاں بھی بیٹوں کو کپوت سمجھتی ہیں۔
آپ چونکہ سمجھدار واقع ہوئے ہیں، اس لیے میں یہ کہنے کی قطعی ضرورت نہیں محسوس کر رہا ہوں کہ’’رانی سے میری منشا یہ ہے کہ ‘بیٹیاں اپنی سسرال میں سات خوشیوں کے ساتھ رہیں‘‘۔ ورنہ یہ بات تو بچوں کی بھی سمجھ میں آگئی ہے کہ’’راجہ اور رانی غلامانہ سماج،اورجمہوری طرز میں کہیں تو سرمایہ دارانہ نظام کی مظبوط ترین علامتیں ہیں‘‘۔
بیشک آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ اپنی بیٹیوں کے حوالے سے بھلا سوچیں،ان کے حوالے سے ایسی اُمید رکھیں کہ وہ سسرال میں رانی بن کر رہیں، ہمیشہ نازک پلکوں پر اٹھائی جائیں۔ بس اک ذرا یہ خیال بھی رکھیے کہ آپ کی بہو بھی کسی کی راج دلاری بیٹی ہے۔ اس کے پیچھے بھی مائیکہ ہے جہاں اس کے اپنے چاہنے والے ہیں ۔ نیز اس کو بھی انہی خواہشوں کے ساتھ وداع کیا گیا ہے کہ راج کماری بٹیا سسرال میں رانی بن کر رہے۔پلکوں پر اٹھائی جائے۔ دودھو نہائے، پھولے پھلے۔
بھائی کہاوت معروف ہے، ’’جیسا کروگے، ویسا بھرو گے‘‘۔ گو یہ کہاوت ہی ہے، وحدانی آیت نہیں ہے، لیکن مبنی بر تجربات ہے۔ ’’چیزیں پلٹ کر آتی ہیں‘‘،’’ کئے کا پھل اسی دنیا میں ملتا ہے‘‘، اس طرح کی باتیں بطور کہاوتیں ہمارے کان بچپن سے ہی سنتے آئے ہیں۔لہٰذا اپنی بہو کے ساتھ سطحی برتاؤ کروگے تو تمہاری بیٹی جو خیر سے کسی کی بہو ہے، اس کے ساتھ بھی وہی سب کچھ ہوگا جو آپ اپنے گھر کسی کے ساتھ کر رہے ہیں۔ جو بھی کیجیے گا، خوب سوچ سمجھ کر کیجیے گا کہ کئے کا وبال خود آپ کے دامن کو داغ دار نہ کردے۔یہ ناممکن ہے کہ آپ کے پیروں سے اٹھنے والی چھینٹیں آپ کے دامن پر نہ پڑیں۔ نقطہ یاد رکھیے گا کہ تمہارے رویوں سے ہی تمہارا ذہنی و قلبی سکون منسلک ہے۔ تمہارے رویوں سے ہی تمہارا گھر جنت نشان ہے۔ تمہارے رویوں سے ہی تمہاری آل اولاد اور عزیز و اقارب عافیت سے ہیں۔آسانی چاہتے ہو تو آسانیاں فراہم کیجیے۔عربی زبان میں کہا جاتا ہے، ’’اِرحم تُرحم‘‘، رحم کر تاکی تجھ پر رحم کیا جائے۔
بات چل پڑی ہے تو میں کہتا چلوں کہ اپنی بیٹیوں کو روز روز فون نہ کیا کیجیے۔ اور خدارا ان سے کھود کھود کر سسرال کی ایک ایک بات ان سے نہ پوچھا کیجیے۔شوہر کی ذاتیات سے متعلق بھی نہ دریافت کیا کیجیے۔ اور نہ اپنی سسرال سے حاصل شدہ تجربات کی روشنی میں بٹیا کو مشورہ دیا کیجیے۔ ’’آج کیا کھایا،کیا پیا، کیا پہنا‘‘ یہاں تک تو ٹھیک ہے، اس سے آگے ہرگز نہیں۔ جوڑ توڑ سے گریز کیجیے اور فون کر کر کے ساس، سسر اور نند کے خلاف بیٹیوں کے کان نہ بھریئے۔ہاں فون کیجیے، ضرور کیجیے اور بات بات میں پتے کی بات بھی بتا دیا کیجیے۔بھئی بیٹیوں کے لیے مائیکے والے نہیں سوچیں گے تو کون سوچے گا۔ بیٹیوں کے لیے مثبت انداز میں سوچنا ہی چاہیے، لیکن ایک حد میں رہ کر۔
بیٹیوں کو سسرال میں اپنی زندگی اپنے حساب کتاب سے جینے دیجیے۔ ابھی تک تو وہ آپ کے ہی گھر میں تھی، آپ کو جو سمجھانا تھا، جو سکھانا تھا وہ سکھا سمجھا دیا ہے۔ اب اس کی نئی َزندگی شروع ہو چکی ہے جو آپ کے ساتھ نہیں ایک نئے خاندان، نئے لوگوں کے ساتھ ہے۔ یہ بات اپنے دماغ شریف میں بٹھا لیجیے کہ آپ کی بیٹی کو بھی خالق کائنات نے دل و دماغ کی نعمتوں سے نوازا ہے۔ مزید یہ کہ وہ آپ سے ایک نسل آگے ہے، نیز آپ سے زیادہ اعلیٰ اور ترقی یافتہ معاشرے کی رکن ہے۔
آپ اپنا خیال رکھیے۔ چوں کہ آپ بھی کسی گھر میں بہو بن کر آئی تھیں۔ گو کہ اب آپ از خود نوجوان بچوں کی ماں بن چکی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ایک عدد دادی یا نانی بھی بن گئی ہوں۔ ان سب باتوں کا خیال رکھتے ہوئے میں بڑی نرمی اور قدرے سنجیدگی کے ساتھ یہ عرض کردینا چاہتا ہوں کہ خوب ٹٹول لیجیے کہ آپ کے اپنے جنت نشان گھرمیں بوڑھے ساس سسر تو نہیں ہیں۔ خیر سے ہیں تو وہ کس عالم میں ہیں، نیز ان سے آپ کا رویہ، رشتہ کیسا ہے۔۔۔ وہ آپ سے خوش تو ہیں۔۔۔ کہیں آپ نے ان کے بیٹے کو ان سے دور تو نہیں کررکھا ہے۔۔۔!
اس کے علاوہ جو موقع ملے تو دیکھ یہ بھی لیجیے گا کہ آپ کا آستانہ عالیہ جن لڑکیوں کا سسرال ہے یا آپ کے گھر میں جو لڑکیاں ‘بہو’ بن کر آئی ہیں، وہ کیسے رہ رہی ہیں۔۔۔ آپ کا گھر ان کے حق میں جنت نشان ہے یا نہیں۔۔۔ کہیں ایسا تو کہ وہ آپ کے دولت خانے کی زینت نہیں بل کہ نوکرانی، باہری بن کر رہ رہی ہیں۔۔۔ نقطہ یاد رکھیے کہ وہ بھی کسی کی راج دلاری بیٹیاں ہیں۔ ذرا دیکھ لیتے کہ آپ کے گھر میں کہیں وہ نوکرانی بن کر تو نہیں رہ رہی ہیں، آپ دیکھ لیجیے ایک دفعہ!
دیکھ یہ بھی لیجیے گا کہ نعوذ باللہ بہو نے کہیں آپ کے لختِ جگر کو آپ سے دور تو نہیں کردیا ہے۔
اپنی خبر لیجیے۔ اپنی دکان پر بیٹھئے اور دیکھئےکہ کیا ہے، کیا نہیں ہے اور کس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ کس چیز کی قدرے کم ضرورت ہے۔دوسروں کی دوکانیں ٹٹولنا چھوڑیئے۔ بھئی چال آپ کے ہاتھ میں ہے، دیکھ داکھ کر چلئے۔ ایسا نہ ہو کہ زندگی کی چال کمبخت کہیں اُلٹی نہ پڑ جائے!
9560877701
[email protected]