! اپنی صلاحیتوں کو اَپ ڈیٹ کریں اور ذمہ داریاں سمجھیں

بلاشبہ ہمارے کشمیری معاشرے میں ایسے نوجوانوں کی کافی افرادی قوت موجود ہے جن کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن ہے، جو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں جو اپنے معاشرے کو مایوسیوں اور نا امیدیوں کی منجھدھار سے نکال سکتے ہیں۔ نظامِ تعلیم اور نظامِ تربیت پر مغربی افکارو تہذیب کے غلبہ کے باوجود کشمیری معاشرے میں ایسے نوجوانوں کی ایک خاصی تعداد موجود ہے جو ساری مشکلات کے باوجود اپنے فرائض کو سرگرمی کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کررہےہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ خود اعتمادی، آگے بڑھ جانے کی جستجو، نیک مقصد اور مضبوط ارادے ہوں تو نا اُمیدی کبھی بھی حاوی نہیں ہوسکتی۔ نوجوان نسل کو خود اس کے لیے اپنی کاوشیں آگے بڑھانی چاہئیںاور آج کے اس انتہائی جدید دنیا کی ثقافت کی اجارہ داری سے خود کو آزاد کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جو طلبہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں وہ مثبت سمجھ بوجھ تورکھتے ہیں اور اُن میں اپنے بھلے اور بُرے کو پہچاننے کی صلاحیت بھی پیدا ہو چکی ہے،وہ اپنا راستہ خود بنا سکتے ہیں، اس وجہ سے تمام تر انحصار حکومت ہی کی کوششوں پر نہیں ہے بلکہ خود طلبہ کی اپنی کوششوں پر بھی ہے۔نوجوانوں کو خود یہ احساس ہونا چاہیے کہ بحیثیت کشمیری اُنہیںاس خطۂ ارض میں ایک باوقار قوم کی حیثیت سے رہنا ہے۔ اس لئے اخلاق کے معاملہ میںہرگز غفلت شعاری سے گریز کریں بلکہ ایک ایسی ثقافت کی پروش کریں جو اسلام کے تمام تصورات کی اور اس کے تما م بنیادی اخلاقی نظریات کے مطابق ہو۔ اپنی سر زمین کی مٹی سے وفاداری اِس وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہے، بے شک ہمارے یہاںمعاشرتی حالات بہتر نہیں ہیں، معاش و روزگار کا فقدان ہے،مہنگائی عروج پر ہے، بے ایمانی،بددیانتی اورکورپشن عام ہے، لیکن بہ ہر صورت یہ معاشرہ ہمارا ہی تو ہے، اس معاشرہ نے ہی ہمیں اور ہمارے آباؤاجداد کو پالا ہے۔ آج جب اِس بگڑے ہوئے معاشرے کو اُن کی ضرورت ہے تواُن کا فرض بنتا ہےکہ عقل مندی اور وفا شعاری سے کام لیں۔ظاہر ہے کہ نوجوان کو ہی معاشرے کی ترقی اور روشن مستقبل کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔اس لئے نوجوانوں پر لازم ہے کہ اپنی صلاحیتوں کی بدولت ملک و معاشرے کی خدمت کے لیے پرعزم ہوں، تاکہ اِن مشکل حالات میں معاشرےکو استحکام نصیب ہو۔ یاد رکھیں کہ دنیا میں آدمی کا وزن اس کی صلاحیتوں کے حساب سے ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی صلاحیتوں کواَپ ڈیٹ کریں کیوں کہ اَپ گریڈ کرنا عقل مندوں اور دنیا میں کچھ کر گزرنے والوں کا شیوہ ہوتا ہے۔اپنی تمام تر غیر ضروری سرگرمیوں کو ترک کرتے ہوئے تعلیم کے میدان میں متحرک ہو جائیں، نجی زندگی کی مصروفیات کو کم سے کم تر کر دیں۔ روایتی مضامین سے ہٹ کر مصنوعی ذہانت، سائبر سیکورٹی، آئی ٹی، سافٹ ویئر انجینئرنگ، آرٹیفیشل پراڈکشن اور ان جیسے جدید علوم کی جانب قدم بڑھائیں۔ یہ علوم ہی معاشی حالات کو بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ سماجی سرگرمیوں کا آغاز کریں۔ اپنے دوست و احباب کے ساتھ مل کر چھوٹی چھوٹی انجمنیں بنائیں، صاحب استطاعت افراد اپنی بساط کے مطابق رفاہی فنڈز فراہم کریں، جو بعد ازاں باہمی مشاورت سے مختلف رفاہی سرگرمیوں، خصوصاً تعلیم، صحت اور خوراک میں استعمال ہو سکیں۔نوکری کے بجائے جزو وقتی کاروبار کی بنیاد ڈالیں، روزانہ کی بنیاد پر اسے وقت دیں، ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے ذریعے اسے پروموٹ کریں، تاکہ آنے والے وقت میں آپ کے پاس مستقل ذریعہ آمدن ہو۔دینی تعلیمات اور اپنے اسلاف کی تاریخ سے رشتہ مضبوط کریں، ان کے کارناموں کے پیچھے چھپی صلاحیتوں کوجانیں۔ سادہ طرز زندگی کو اختیار کریں، برانڈڈ کے پیچھے نہ بھاگیں۔ سوشل میڈیا پر مباحثے کے بجائے علمی حلقوں میں مکالمے کا رجحان اپنائیں۔سیاست کے میدان سے حتی الامکان کنارہ کشی اختیارکریں، ایسی بلاضرورت وابستگیاں ہی آپس میں رنجشیں، نفرتیں اور انتشار پھیلنے کا سبب بنتی ہے۔نوجوان اپنی معاشرتی وابستگیوں میں دل چسپی لیںتاکہ محبتیں فروغ پاسکیں اور اپنی صلاحیتوں کا ادراک کرنے ، دل و جاں سے ملت و معاشرےکی خدمت کرنےاور بگڑی ہوئی صورت حال میں سدھار لانے کو فوقیت دیں، یہی وقت کی ضرورت اور تقاضا بھی ہے۔