اِسقاط حمل کی مشروط اجازت  | راحت کا خیر مقدم لیکن احتیاط بھی انتہائی لازم

سپریم کورٹ نے جمعرات کوایک اہم فیصلہ میں میڈیکل ٹرمی نیشن آف پریگنسی (ایم ٹی پی) ایکٹ کی تشریح کرتے ہوئے اعلان کیا کہ غیر شادی شدہ، بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین قانونی طور پر شادی شدہ خواتین کی طرح 24ہفتے تک کے جنین کے اسقاط حمل کرنے کی حقدار ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سنگل اور غیر شادی شدہ خواتین کو طبی طور پر محفوظ اسقاط حمل کا اتنا ہی حق حاصل ہے جیسا کہ شادی شدہ خواتین کو۔اس لحاظ سے یہ فیصلہ قانون کی روح اور اس کے اطلاق کے درمیان تضاد کو دور کرنے کیلئے ایک اہم فیصلہ ہے۔ آئین میں مساوات کی شق اور خواتین کے وقار، رازداری اور جسمانی خود مختاری کے حق کی بنیاد پرعدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ سنگل یا غیر شادی شدہ خواتین کو ان خواتین کے زمرے سے خارج کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے جو حمل کے 20 ہفتے مکمل ہونے کے بعد اور 24 ہفتوں سے پہلے اسقاط حمل کا حق استعمال کرنا چاہتی ہیں۔قابل ذکر ہے کہ دہلی ہائی کورٹ نے ایک 25 سالہ خاتون کے حمل گرانے کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا جو رضامندی سے رشتہ میں تھی، لیکن اس کے ساتھی کی جانب سے شادی کرنے سے انکار کرنے کے بعد وہ حمل کو ختم کرنا چاہتی تھی۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ غیر شادی شدہ ہونے اور حمل رضامندی سے ہونے کی وجہ سے وہ قواعد کے تحت ترمیم کے فائدے کی اہل نہیں تھیں۔ ہائی کورٹ نے ایک تکنیکی نقطہ نظر اختیار کیااور رول 3Bکا سہارا لیاتھا جس میںحمل گرانے کیلئے اہل خواتین کی فہرست دی گئی تھی جن میںعصمت دری سے متاثرہ خواتین، نابالغ لڑکی، جسمانی معذور اور دماغی بیماری مین مبتلا خواتین شامل ہیں تاہم اس شق میں واضح طور پر اکیلی خواتین کو شامل نہیں کیا گیاتھا جو رضامندی سے حاملہ ہوئی تھیں۔تاہم اب عدالت عظمیٰ نے “ازدواجی حیثیت میں تبدیلی” قواعد کو ایک مقصدی معنی دیا ہے جس کے تحت اب 24 ہفتوں کی توسیع شدہ بالائی حد کے دوران اسقاط حمل جائزٹھہرا ہے۔ چونکہ یہاں دلیل عورت کے مادی حالات میں ممکنہ تبدیلی ہے، عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ ساتھی کی طرف سے ترک کرنا بھی ایسے حالات میں تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے جو حمل کو جاری رکھنے کے پہلے کے فیصلے کو متاثر کر سکتا ہے۔ مقننہ نے حمل کے 24ویں ہفتے تک اسقاط حمل کی اجازت دی ہے، اگر دو رجسٹرڈ طبی ماہرین کی رائے ہوگی کہ حمل جاری رکھنے سے عورت کی جان کو خطرہ یا اس کی صحت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہاں بھی عدالت نے ایک مقصدی نظریہ اپنایا ہے اور یہ دلیل دی ہے کہ غیرارادی یا غیر شعوری حمل عورت کی جسمانی اور دماغی صحت کو متاثر کرتا ہے، اس لئے یہ کافی اہم ہے کہ وہ اکیلے اسقاط حمل سے گزرنے کا فیصلہ کرے۔ ایک سوال پر جو اس معاملے میں براہ راست اجاگرنہیں ہوا، عدالت نے کہا کہ عصمت دری سے متاثرہ لڑکیاں یا خواتین، جو قانونی طور پر توسیع شدہ مدت میں اسقاط حمل کروا سکتے ہیں،ان میں ازدواجی عصمت دری متاثرین بھی شامل ہوں گے۔ یہ عدالتی نظریہ ان سوالات کو اٹھانے سے روک سکتا ہے کہ کیا ازدواجی عصمت دری کی وجہ سے حمل جو کہ کوئی جرم نہیں ہے، کو بھی اس قاعدے کے تحت ختم کیا جا سکتا ہے۔عدالتی فیصلہ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ سخت پابندیوں کے باوجود آج بھی ہمارے ملک میں اسقاط حمل کا سلسلہ بند نہیں ہوا ہے اور آج بھی چوری چھپے حمل گرائے جانے کا سلسلہ جاری ہے اور ایسے معاملات میں بیشتر تعداد ایسی لڑکیوں کی ہوتی ہے جو جوانی کے جوش میںہوش کھو بیٹھ کر بد قماش لڑکوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں اور پھر وہ لڑکے انہیں چھوڑ جاتے ہیں اور یوں ایسی لڑکیوں کو ایک ایسے حمل کے ساتھ چھوڑ دیاجاتا ہے جوان کی خواہشات کے عین برعکس ہوتا ہے ۔اس ساری صورتحال میں تشویشناک امر یہ ہے کہ چونکہ حمل گرانے پر پابندی عائد تھی جو بیشتر اسقاط حمل غیر محفوظ طریقوں سے کرائے جارہے ہیں اور اس میں اکثر معاملات میں ڈاکٹروں کی مدد لینا تو کجا ،سرکاری یا نجی سیکٹر کے طبی مراکز کا بھی رجوع نہیںکیاجاتاہے بلکہ رہائشی مکانوں میں نیم طبی عملہ کے ذریعے ایسے حمل گرائے جارہے ہیں جو بسا اوقات متاثرہ خاتون کی جان لینے کا بھی سبب بن جاتے ہیں۔اب جبکہ حمل گرانے کو مخصوص حالات میں جائز قرار دیاگیا ہے تو یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ اب کم از کم اسقاط حمل ڈاکٹروں کی موجودگی میں محفوظ طریقے سے ہوسکتا ہے اور عصمت ریزی متاثرہ خواتین کو سماج میںاپنی عزت بچانے کیلئے رہائشی مکانوں میں یہ ریکٹ چلانے والی نیم حکیم نرسوں کے سامنے گڑ گڑانا بھی نہیں پڑے گا۔یہ اس صورتحال کا ایک پہلو ہے تاہم اس صورتحال کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اس عدالتی اجازت کے نتیجہ میں بے راہ روی کو فروغ بھی مل سکتا ہے اور چونکہ مخصوص حالات میں اب سنگل عورتوں کو بھی حمل گرانے کی اجازت ہے تو عین ممکن ہے کہ اس قانونی تاویل کی آڑ میں اب بدکاری میں ملوث مرد وخواتین حمل گرانے کو ہی معمول بنائیں اور بدکاری کرنے کے خوف سے آزاد ہوجائیں۔اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ایک خوفناک صورتحال ہے اور اسکے نتیجہ میں سماجی توازن ہی بگڑ سکتا ہے ۔اس لئے عدلیہ اور سرکار کو چاہئے کہ وہ جہاں حقیقی معنوں میں متاثرہ خواتین یا لڑکیوں کے لئے اس عدالتی حکم کو راحت کے طور استعمال کو یقینی بنائیں وہیں ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنانا پڑے گا کہ کہیں اس عدالتی راحت کی آڑ میں بد قماش لوگوں کی عیاشیاں ہی نہ بڑھیں۔