اُمت کو چار عمدہ صفات کے حصول کی ترغیب فکرو ادراک

مفتی غلام مصطفیٰ رفیق

امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب الادب المفرد میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے ایک روایت نقل کی ہے، جس میں حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ امت کو چار خصلتوں کے حصول کی ترغیب دے رہے ہیں، اور احادیث کی بعض کتابوں میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کے اس ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ جس انسان کو اللہ تعالیٰ چار صفات سے نواز دیں اور دنیا کی کوئی اور چیز اس کے پاس موجود نہ بھی ہو، تو اسے کسی غم اور فکر کی ضرورت نہیں ، گویا کہ یہ چار خصلتیں بہت بڑی دولت ہیں، جن کے مقابلے میں دنیا کی مادی دولتیں ہیچ ہیں۔
پہلی خصلت: حسن اخلاق:۔ پہلی خصلت کہ جو انسان کے اندر پائی جائے،’’ حُسْنُ خَلِيقَةٍ ‘‘ وہ حسن اخلاق ہیں، حقیقت یہ ہے کہ علم اور عمل کا خلاصہ اور نچوڑ اچھے اخلاق ہیں، ساری تعلیم ، علوم وفنون میں مہارت، دنیا بھر کی ڈگریاں کسی کے پاس موجود ہوں، لیکن اگر اس کے پاس اچھے اخلاق نہیں تو گویا کہ کچھ نہیں۔ ہمارے نبی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف احادیث میں ارشاد فرمایا ہے: مجھے معلم ،تعلیم دینے والا بناکر بھیجا گیا ہے، تو ساتھ دوسری جانب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا : مجھے اس لیے بھی مبعوث کیا گیا ، بھیجا گیا ہے تاکہ اعلیٰ اخلاق کی میں تکمیل کروںاور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے اخلاق کی تعلیم بھی دی اور عملی نمونہ پیش کیا کہ جس کا ذکر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بلند کلمات سے فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے بلند مرتبے پر فائز ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند اخلاق کا نمونہ :۔حضرت انس ؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان بلند اخلاق کا نقشہ یوں بیان کیا ہے کہ :مدینہ منورہ میں اگر کسی باندی کو بھی کوئی کام ہوتا ،کوئی ضرورت ہوتی تو وہ اگرحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو طلب فرماتیں تو آپ اس کی ضرورت کے لیے بھی حاضر ہوتے ،اور جہاں وہ کہتی، آپ اس کے کام کو سرانجام دیتے۔
اس پہلی خصلت کا حصول بھی ہر صاحب ایمان کو کرنا چاہیے،اور حقیقت یہ ہے کہ انسان عبادات کی کمی کے باوجود حسن اخلاق کی بدولت بڑا اونچا رتبہ حاصل کرسکتاہے، اس لیے سنن ابو داؤد کی ایک روایت میں ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی حسن اخلاق کی بدولت ،ان لوگوں کا مقام حاصل کرلیتا ہے جو رات بھر نوافل پڑھتے ہوں اور دن بھر روزہ رکھتے ہوں۔ کتنی اونچی فضیلت اس حدیث میں بیان کی گئی ہے۔
حضرت معاذ ؓ کو آخری اور اہم نصیحت:۔حضرت معاذ بن جبل ؓ مشہور صحابی ہیں، انہیں یمن کی جانب بھیجتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی نصائح فرمائی تھیں،امام مالکؒ نے مؤطا امام مالکؒ میں اس سلسلے میں حضرت معاذ ؓکا یہ قول نقل کیا ہے ،حضرت معاذ ؓفرماتے ہیں : میں نے روانہ ہونے کے لیے اپنی سواری کی رکاب میں پاؤں رکھ دیا تھا ،تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے معاذ!لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا۔
دوسری خصلت:پاکیزہ کھانا:۔ دوسری خصلت یہ بیان فرمائی کہ ’’ وَعَفَافُ طُعْمَةٍ ‘‘کھانے میں حلال کا اہتمام کرنے والا ہو۔یہ بھی بڑی اونچی خصلت ہے، انسان کو ہمیشہ حلال کا اہتمام کرنا چاہیے، اور کسی بھی حرام کے ذریعے سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا چاہیے۔حرام سے تو ایک مسلمان دور رہے، مشتبہ سے بھی اپنے آپ کو بچائے ، حلال کمائی سے انسان نیکی کی طرف راغب ہوتا ہے، نیکی کا جذبہ اور شوق پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال روزی کی طلب کو بھی ایک اسلامی فریضہ قرار دیا ہے۔حضرت عائشہ ؓ سب سے افضل عبادت حرام سے بچنے کو قراردیتی تھیں۔حرام کھانے کی وجہ سے انسان کی عبادات مقبول نہیں ہوتیں، دعائیں رد ہوجاتی ہیں، احادیث میں تفصیلاً اس کا ذکر موجود ہے۔
تیسری خصلت:گفتگو میں سچ اختیار کرنا:۔ تیسری خصلت یہ بیان کی کہ ’’ وَصِدْقُ حَدِيثٍ ‘‘ جب کسی کو بات میں سچائی کی دولت نصیب ہو ، یہ بھی اعلیٰ صفت ہے ۔سچائی دنیا و آخرت دونوں میں انسان کو نفع دیتی ، کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ہے :سچ انسان کو نیکی اور بھلائی کی راہ دکھاتا ہے ، اور نیکی انسان کو جنت میں لے جاتی ہے۔ ایک روایت میں فرمایا: جو اللہ اور اس کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت کرتا ہو، اسے سچی بات کرنی چاہیے۔
لقمان حکیم ؒجن کی حکمت ودانائی کے اقوال قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمائے ہیں ، ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو یہ حکمت و دانائی کیسے حاصل ہوئی ؟انہوں نے کہا میں نے ہمیشہ دو چیزوں کا اہتمام کیا: ایک یہ کہ ہمیشہ سچ بولنا، اور دوسرا فضول کاموں سے اجتناب۔ان دو اسباب سے مجھے یہ حکمت ودانائی حاصل ہوئی ہے۔
چوتھی خصلت: امانت کی پاس داری:۔ چوتھی خصلت جس کا اس روایت میں ذکر کیا گیا وہ یہ ہے کہ ’’ وَحِفْظُ أَمَانَةٍ ‘‘کہ امانت کی پاسداری ہونی چاہیے۔انسان کے پاس امانت چاہے مال کی صورت میں ہو، چاہے کلام کی صورت میں ہو، عہدہ اور منصب کی صورت میں ہو، مشورے کی صورت میں ہو، بہر صورت امانت کا لحاظ رکھنا چاہیے، امانت کی پاسداری اور خیال رکھنا چاہیے۔
امانت کی مختلف صورتیں :۔ اسی طرح کسی شخص کے پاس بطور عاریت کے کوئی سامان ہو ، کسی نے استعمال کے لیے کوئی چیز دی ہے، یہ بھی امانت میں شامل ہے، راستے میں یا کسی بھی جگہ کوئی گری پڑی ہوئی چیز کسی انسان کو ملتی ہے یہ بھی امانت ہے،اسے بھی مالک تک پہنچانے کی کوشش کی جائے۔کسی نے مال رکھوایا اور رکھوانے والا دنیا سے چلا گیا ،یہ مال بھی امانت ہے ، اسے مرحوم کے ورثاء تک پہنچایا جائے۔