اَمرِ بالمعروف ونہی عن اِلمُنکر ایک فریضہ، ایک ضرورت

New Delhi: People who showed coronavirus symptoms being taken to various hospitals from Nizamuddin area in New Delhi, Monday, March 30, 2020. The police took around 200 such people to the hospital as they participated in a religious congregation at a mosque, few days back. (PTI Photo/Ravi Choudhary) (PTI30-03-2020_000230B)

لون ایوب

اللہ تعالیٰ نے جب سے انسان کو دنیا میںبھیجا ہے، تب سے انسان کو دو بڑی اور اہم ضروریات کا محتاج بنایا ہے۔ ایک انسان کی مادی ضروریات اور دوسری اخلاقی ضروریات ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس قدر مہربان ہے کہ انسانی زندگی کی بقا اور اِن دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بے شماروسائل بھی پیدا کئے ہیں۔ مادی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے زمین کے اندر اور باہر وسائل کا ایسا ذخیرہ رکھا ہے، جنہیں بروئے کار لا کر انسان اپنی تمام ضروریات حاصل کر سکتا ہے۔اسی طرح انسان کی اخلاقی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے وقتاً فوقتاًانبیاء کرام علیہم السلام بھیجنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ،تاکہ وہ راہِ راست پر چل سکے۔ جب بھی بنی نوع اِنسان راہ راست سے ہٹتا ،اللہ تعالیٰ انبیاء کو مبعوث کر کے انسان کی راہنمائی کا سامان مہیا کرتا ۔ انبیاء کرام ؑ لوگوں کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی تعلیم دیتے تھے۔ یہاں تک کہ نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کے سلسلے پہ اپنی مہر ثبت کی کہ اب کوئی نبی نہیں آنے والا ہے۔ انبیاء کرام کا سلسلہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہ ختم ہوا اور اب کوئی نبی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام نہیں دے سکتا۔ تو اب اگر انسان راہ راست سے بھٹکے گا تو کیا وہ گمراہ ہی رہے گا؟ کیا اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لئے راہنمائی کا کوئی انتظام نہیں کیا ہے؟
ان سوالات کا جواب سورہ آل عمران کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے کہ’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں ۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے ۔
اللہ تعالی سورہ آل عمران میں اس امت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے :’’ اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو، جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے ۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو ، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔ یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا ، اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے بیشتر افراد نافرمان ہیں‘‘ ۔
سورۃ التوبہ میں اللہ تعالی مؤمنوں کی صفتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:’’ مومن مرد اور مومن عورتیں ، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ، زکوٰة دیتے ہیں، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی ، یقیناً اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے ‘‘۔
گویا قرآن مجید کے حوالے سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر اس امت پر ایک فریضہ ہے ،جس سے اس امت کو کسی بھی صورت اعراض نہیں کر سکتی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری نبی ماننے کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم میں سے صالح طبقات کو آگے آکر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔تاکہ دنیا میں جو غیر صالح طبقات یا جنہوں نے راہ راست چھوڑ کر مغضوبوں کی راہ لی ہے ،وہ راہ راست پاسکیں اور ان کے لئے حجت تمام ہو جائیں اور ہم دنیا میں بھی فلاح پا سکیں اور آخرت میں بھی اپنے رب کے آگے سرخرو ہوجائیں۔
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کا بہت بڑا ذخیرہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سلسلے میں موجود ہے۔اس سلسلے میں کچھ احادیث مبارکہ ہدیہ قارئین کرتے ہیں۔
نبی اکرم ؐ کے ایک ارشاد کا مفہوم ہے کہ جو تم میں سے کوئی برائی دیکھے پس اس سے چاہیے کہ وہ اس برائی کو ہاتھ سے روکے، اگر ہاتھ سے روکنے کی استطاعت نہ ہو، چاہیے کہ وہ اپنی زبان سے روکے، اگر زبان سے بھی برائی روکنے کی استطاعت نہ ہو ، تو چاہیے کہ وہ اس برائی کی نفرت دل میں رکھے، اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔ ایک اور حدیث میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ مفہوم:اس کے بعد ایمان کا کوئی درجہ نہیں ہے یعنی رائی کے دانہ کے برابر بھی اس شخص کا ایمان نہیں ہے جو برائی دیکھ کے اس کی نفرت دل میں نہ رکھے۔ اس حدیث سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دین اسلام میںنہی عن المنکر کی کیا حیثیت ہے اور امت محمدیؐ پہ کیسا فریضہ ہے۔
اگر ہم اپنے معاشرے پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں گےتو کتنے ہی منکر افعال ہمارے معاشرے میں پنپ رہے ہیں ۔ کتنے نوجوانوں نے گمراہ راہوں کو اختیار کیا ہے۔ ۔ کتنی بیٹیاں اپنی عزتیں نیلام کئے پھرتی ہیں۔ جدید تہذیب کے نام پر مخلوط تعلیمی نظام نے کتنے بیٹوں اور بیٹیوں کو حیا کے زیور سے محروم کیا۔ اور یہ سب کام ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے۔ بازاروں میں نوجوانوں کی بےراہ رویاں عیاں ہیں، لیکن کیا ہم میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی سنجیدگی کا احساس ہے۔ اگر ہوتا تو ہم ان نوجوانوں کو سمجھاتے، انہیں طاقت کے زور پہ بے راہ روی سے باز رکھتے۔ لیکن نہیں! ہم تو اپنے آپ کو بچانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ دوسروں کی بیٹیاں غیر محرموں کے ساتھ بازاروں میں پھرتی ہے، ہمیں جو تک نہیں رینگتی۔ لیکن جب اپنی بہن کو دیکھتے ہے تو خودکشی کرنے پہ اتر آتے ہیں۔ معاشرے میں اگر صالح طبقات نے فریضہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو سمجھا ہوتا، تو معاشرے میں بے حیائی نہ ہوتی، منشیات کی وباء اتنی نہ بڑھتی۔ جب ہم اس فریضہ میں تساہل کا شکار ہوگئے تو سارے معاشرے کو اس کی سزا بھگتنا پڑتا ہے۔
اللہ تعالی کے نبیؐ نے کس خوبصورت اور فکر آمیز صورت میں اس فریضہ کو سمجھایا ، فرمایا کہ: اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے اور ان حدود کو توڑنے والوں کی مثال اُس قوم کی ہے، جو ایک کشتی میں سوار ہیں، کچھ لوگ کشتی کی نچلی والی منزل میں ہے اور کچھ اوپر والی منزل میں، جب نیچی منزل والوں کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو انہیں اوپر آنا پڑتا ہے۔ اس پر ان(نیچی منزل والوں ) نے مشورہ کیا کہ اگر ہم اس کشتی کو سراخ کرلیں اور پانی حاصل کر لیں یہ بہتر رہے گا، اور اوپر والوں کو تکلیف بھی نہیں ہوگی،
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر وہ(اوپری منزل والے) انہیں چھوڑ دیں تو سب بلاک ہوجائیں گے، اور اگر ان کے ہاتھ پکڑ کر انہیں روک لیں تو دونوں نجات پا لیں گے۔
اس حدیث شریف کے رو سے معاشرے میں موجود غیر صالح طبقات کو ہاتھ پکڑ کر راہ راست کی طرف لانا صالح طبقات کی ذمہ داری ہے۔اگر ایسا نہ کیاگیا تو دونوں طبقات ہلاک ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو سمجھنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
( سندھبل گاندربل،رابطہ۔ 7006862116)
[email protected]>