اَشک فشانی ! میری بات

سیدہ عطیہ تبسم

اشک بہانا نہ تو زمین کے بس کی بات ہے نہ سمندر کا ظرف ہے یہ تو پوری کائنات میں فقط بلند و بالا آسمان کا مقدر ہے کہ اسےیہ فن بخوبی آتا ہے۔ جب آسمان اشک بہاتا ہے تو زمین کے کسی صحرا کو زندگی دے جاتا ہے، کہیں کسی مرجھائی فصل میں جان بھر دیتا ہے۔ اشک تو زندگی کی علامت ہے مگر حیرانگی کی بات ہے کہ انسان تب اشک بہاتا ہے جب کوئی پھول مرجھا جاتا ہے، کوئی زندگی دم توڑ دیتی ہے، شاید اس کے وجود میں کسی کے کی فوت کے ساتھ بہت کچھ دن توڑ رہا ہوتا ہے اور اور وہ اپنے اندر کی سلامتی کے لیے اشک بہاتا ہے ۔ خیر جو بھی ہو یہ عظیم الشان قطرہ ہوتا بہت دلکش ہے اتنا کے ہر پتھر کو پگھلا سکتا ہے، ہر بنجر زمین کو سیراب کر سکتا ہے۔’’ اشک ‘‘کہیں ’’آنسوں‘‘ ہیں یا پھر کوئی حقیر قطرہ یا ایک عظیم قطرہ۔ یہ تو بس نظریے کا فرق ہے کہ نظریہ لوہار کا ہے یا سونار کا۔ جب الفاظ احساسات کی ترجمانی کرنے کے قابل نہیں رہتے، تب یہ حقیر قطرہ بڑی آسانی سے ان کی ترجمانی کر دیتا ہے اور الفاظ کی طرح شور بھی نہیں مچاتا۔ میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ انسان کتنا احسان فراموش ہے، وہ اپنے اس خوبصورت ترجمان کو اپنی آنکھوں سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہتا ہے۔ جبکہ یہ اشک کبھی کسی غم یا صدمے میں اس کی آنکھوں کو بنجر نہیں ہونے دیتے۔ گھٹاٹوپ اندھیروں میں بھی اس کے سائے کی طرح اس کا ساتھ نہیں چھوڑ تے ،بس باوفا ہو کر بہتے رہتے ہیں۔
حسرتیں، چاہتیں، الفتیں، نفرتیں، عقیدتیں، عداوتیں کیا کیا سمیٹے رکھتا ہے یہ ذرا سا قطرہ۔ کتنے احساسات کا راز دار اور ترجمان بنا رہتا ہے ،کبھی کسی اشک کے قطرے نے چغلی نہیں کی کہ وہ خوشی کا ہے یا غم کا، بس انسان کے کسی مخمور جذبے کی نذرہوگیا۔خالقِ کائنات نے سات سمندر پیدا کئے مگر محبت فقط آنسوں کے قطرے سے کی۔ یہی نہیں انسان کے نجات کا ذریعہ بھی اسی کو بنایا۔ جن گناہوں کو ہم اپنی زبان پر لانا بھی گوارا نہیں کرتے۔کتنا انوکھا اور نرالا ہے یہ ذرا ذرا سا قطرہ کہ ہمارے ان گناہوں کی تلافی بھی کر دیتا ہے جنہیں ہم زبان پر لانا بھی گوارا نہیں کرتے۔ کیا خوب فرمایا ہے علامہ اقبال نے:
موتی سمجھ کر شان کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے میرے عرق انفعال کے
حقیقی اشک فشانی شاید انسان کے بس میں ہے بھی نہیں۔ کبھی کبھی درد کی شدت سے وہ رونا چاہتا ہے مگر یہ قطرے نمودار نہیں ہوتے اور کبھی کبھی وہ بہتے طوفان کو تھامنا چاہتا ہے مگر یہ بھی نہیں کر پاتا ۔ دراصل یہ آنسو وہیں، نمودار ہوتے ہیں جہاں جذبات مخلص اور پاک ہوں۔ آنسوں تو کسی گل کی پنکھڑی پر بکھرے ہوئے شبنم کے قطروں کی طرح ہوتے ہیں جو اس کے بے تحاشہ حسن میں اضافہ کرتے ہیں، یا انہیں سیپ میں چھپے موتی کہا جائے تو بجا ہوگا ۔ مسکراہٹ سے بھی انمول ہوتے ہیں یہ آنسوں ۔ہماری مسکراہٹ عوام کے لیے ہوتی ہے جب کہ یہ موتی فقط کچھ خاص اشخاص کے لیے۔ بدترین مقام وہ ہے جب آپ کی وجہ سے کوئی آنکھ نہ ہو اور بہترین مقام وہ ہے جب آپ کے لیے کوئی آنکھ برسے ۔ دنیا میں سب سے اعلیٰ مکان یہی پانی کا امکان ہے، اس کے مکین بہت دلکش ہوتے ہیں، اتنے کہ انہیں کسی کی پلکوں کی چھاؤں نصیب ہوتی ہے جو انہیں ہر آنے والی دھوپ سے بچائے رکھتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ آنسو کو کسی با رونق محفل کی نذر کرنے کے بجائے کسی محفوظ سیپ میں بند کرکے رکھنا چاہیے تاکہ وہ آسانی سے موتی بن سکیں، شاید اسی احساس کو یوں بیان کیا ہے:
حاوی اب یہ سوچا ہے کہ بہنے دوں نہ آنکھوں سے
ڈھال کر شعروں میں ان کو کروں مکتوب یہ آنسو
سیدہ عطیہ تبسم دودھ

[email protected]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔