’’انسان غلطی کا پُتلا ہے‘‘ فکرو فہم

سیدہ عطیہ تبسم ۔ڈوڈہ

’’انسان غلطیوں کا پتلہ ہے‘‘ ۔ یہ جملہ ہم سب میں کافی مقبولیت کا حامل ہے۔ ہم چلتے، پھرتے، اٹھتے، بیٹھتے، کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں اس جملے کو دھراتے رہتے ہیں ۔ جب ہم سے بذاتِ خود کوئی غلطی سر زد ہو جاتی ہے، اس موقعے پر ہم ہر کسی کی زبان سے اسی جملے کی توقع رکھتے ہیں ۔ یہ توقع شاید اس لئے ہوتی ہے کیونکہ ہم اُس وقت اِس جملے کا عملی نمونہ پیش کر رہے ہوتے ہیں ۔ مثبت خیالی کا مزید مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی غلطی کو جسٹیفائی( justify) کرنے کے لئے ہم طرح طرح کےمثبت جملوں کا ورد کرتے ہیں، جو کہ کبھی حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں تو کبھی انہیں خیالی پلائوکہنا بجا ہو گا۔
میراذاتی خیال/ تجربہ یہ ہے کہ غلطی کسی بھی کامیاب منزل کی طرف جانے والی سیڑھیوں میں ہر دوسری یا تیسری سیڑھی کا نام ہے ۔ کچھ کہانیوں میں یہ پہلی سیڑھی کا مقام رکھتی ہے ۔ اگر اس دنیا سے غلطی کا تصور مٹ جائے تو تخلیق کاری بھی دم توڑ دے گی ۔ غرض یہ کہ ہر کامیاب تخلیق نا کامیوں اور غلطیوں کا کانٹوں سے بھرا گلدستہ ہوتی ہے ۔
خیر یہ فلسفیانہ خیالات اور ذاتی تجربات ایک طرف ۔ مگر جب ہم اسی نقطے کو کسی دوسری شخصیت میں دیکھتے ہیں تو سارے حقایق reverse motion کی طرح اُلٹے دِکھنے شروع ہو جاتے ہیں یا شاید ہم اُلٹا دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب ’’غلطی ‘‘کااطلاق ’’ہم‘‘ کے بجائے’’تم‘‘ پر ہونا شروع ہو جائے تو مثبت جملے منفی طعنوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ خاص کر یہ ’’تم ‘‘جب ہم سے کم تر ہو، اس صورت میں تو انکا جینا ہی مشکل کر دیتے ہیں ۔
’’ تم سے تو کبھی کوئی کام perfectly ہوتا ہی نہیں ہے۔ تم نے تو قسم کھا رکھی ہے غلطیاں کرنے کی ۔ تم تو بس اپنی زندگی میں نا کامیوں کے tag کمائو گے۔ ۔۔۔۔ ‘‘ ہم اس طرح کے طنزیہ جملوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں ۔
انسان کھی یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا ہے کہ غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے، وہ خود کو خدا اور دوسروں کو فرشتہ ثابت کرتے کرتے دنیا کوجہنم بنا دیتا ہے ۔ یہ دنیا کتنی حسین اور زندگی کتنی آسان ہوتی ،اگر انسان double standards کو چھوڑ دیتا۔ اگر وہ ’’ہم ‘‘اور ’’تم‘‘ دونوں صورتوں میں اپنا قول اور فعل یکساں رکھتا۔
ای میل ۔ [email protected]