انسانیت ۔اللہ کو پسند ہے فکرو فہم

فاطمه كبروی

دنیا میں ہر مذہب سے بڑھ کر انسانیت کا مذہب ہے،اگر انسانیت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو انسان کو گراسکے ،انسان ایک انسان کے ذریعے ہی گرایا جاتا ہے۔اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں سب سے پہلے انسانیت کو آگے رکھا گیا ہے، اسلام میں اس شخص سے اللہ تب تک راضی نہیں ہوتا جب تک انسانیت اختیار نہ کر لے۔
دنیا میں نه تو ہر انسان بُرا ہوتا ہے اور نہ ہی ہر انسان اچھا ہوتا ہے اور اس پوری دنیا میں اچھے اور برے دونوں طرح کے لوگوں کا توازن ہے۔ آج کے اس دور میں تہذیب و
تمدن بالکل مٹا جا رہا ہے، خونی رشتے ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں، ثقافت کی بربادی ہو رہی ہے، رحم دلی ایمان داری، دینداری ،ان سب کا نام و نشان مٹا دیا جارہا ہے، آج کے دور کا انسان صرف اپنے بارے میں سوچ رہا ہے، اوراپنے فائدے کے لئے یہ انسان گناہ پر گناہ کرتا جا رہا ہے۔
انسانیت ،رحم دلی، ہمدردی اور اخلاقیت کا نام ہی ہے ۔انسان ہونا ہمارا انتخاب نہیں بلکہ قدرت کی عطائی ہے، لیکن اپنے اندر انسانیت بنائے رکھنا ہمارا انتخاب ہے۔ انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالی کی عبادت اور انسانیت کی خدمت کرنا ہونا چاہیے، انسانیت کی خدمت کا دائرہ جو دین اسلام نے دیا ہے، وہ کسی اور مذہب نے نہیں دیا۔
اگر مذہب میں سے خدمت اور انسانیت نکال دی جائے تو صرف عبادت ہی رہ جاتی ہے اور محض عبادت کے لئے پروردگار کے پاس فرشتوں کی کوئی کمی نہیں ہے ۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے پوری دنیا شرک و بدعت ،دلالتوں اور نافرمانی کے گڑھے میں گھری تھی ،انسانیت سسکتی اور دم توڑتی دکھائی دے رہی تھی۔
حضرت احنف بن قیسؓ سے کسی نے پوچھا :حضور! یہ بتائے انسانیت کیا ہے؟ مجھے انسان نظر آتےہیں مگر انسانیت بہت کم نظر آتی ہے۔ آپ دیکھ لیں اور دنیا کے اندر تلاش کیجئے انسانیت کو۔آج اگر کسی چیز کا سب سے زیادہ فقدان ہے تو انسانیت کا فقدان ہے۔ سجده کرنے کے باوجود بھی انسانیت کے جلوے نظر نہیں آتے ہیں۔
حضرت احنف بن قیس ؓ سے پوچھا گیا حضور یہ بتائیے کہ انسانیت کیا ہے؟ وہ فرماتے ہیں دولت مند ہونے کے باوجود متواضع اور منکسر المزاج بننا ۔آپ کے پاس دولت ہے لیکن تکبر نہیں ہے ،تواضع ہے آپ کے پاس ۔اگر کسی دولت مند کے اندر تواضع آجائے اور انکساری آ جائے تو اللہ تعالیٰ نے اسے انسانیت کی دولت سے مالا مال فرما دیا ہے ۔اب اندازہ لگایئے اسی لئے کہ دولت اپنے ساتھ تکبّر لے کر آتی ہے ،دولت اپنے ساتھ غرور لے کر آتی ہیں ،الا ماشاء اللہ بہت سارے دولتمند سلام کرنے کے وقت بھی سلام کرنے میں گریز کرتے ہیں۔
حضرت احنف رضی اللہ تعالی عنہ نے دوسری بات یہ فرمائی کہ سزا دینے پر قدرت رکھنے کے باوجود مجرم اور خطا کار کو ازخود معاف کرنا انسانیت ہے ۔
منت احسان کے بغیر کسی کو عطا کرنا یعنی کسی کو اس طرح سے نہ دینا کہ گویا آپ اس پر احسان کر رہے ہیں۔نہیں !آپ کا دینا اللہ کے لیے ہو، کبھی لینے والےکو یہ محسوس نہ ہونے دینا که میں نے تم پر احسان کیا ہے بلکہ اگر وہ تذکرہ کرے تو آپ کہنا چھوڑئیے ،اللہ نے آپ کے صدقےمیں مجھے بہت کچھ عطا کیا ہے، آپ کی وجہ سے مجھے جو ملا ہے ،جو روزی میرے حصے میں آ گئی ، وہ میں نے آپ کو دی، میں نے کوئی آپ پر احسان نہیں کیا۔
خدا کی قسم اگر کوئی دینے والا لینے والے کو یہ جملہ کہے تو لینے والے کے آنکھوں سے آنسو اور دل سے اس کے لیے دعائیں نکلتی نظر آئے گی۔انسانیت کے حوالے سے یہ بتایا گیا کہ منت احسان بغیر عطا کرنا، یعنی بغیر کسی انسان کے بدلے ازخود رضا الہٰی کے لیے کسی کو دینا ،جو دوسروں کے درد کو محسوس کرے یہ انسانیت ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے جو صرف اللہ کی عبادت کرتا ہے اور جواللہ کی مخلوق سے پیار نہیں کرتا ، اللہ پاک بھی اسے پسند نہیں کرتاہے۔
اللہ اُسی سے محبت کرتا ہے جو اس کی مخلوق کے ساتھ نرمی سے پیش آجاتا هے اور اس سے محبت کرتا ہے جوکسی بھوکے کو کھانا کھلاتا، کسی محتاج یا غریب کی محتاجگی دور کرتا ،کسی بیمار کی تیمارداری کرتاہے۔ غرض اللہ کی مخلوق کے حقوق پورے کرنا هی اللہ تعالی کا احترام کرنا ہے۔ انسان کے ساتھ انسانیت دکھاتا ہے۔ اللہ سے محبت اور اس کی عبادت کا باعث ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کا درد اپنے سینے میں پالا، ہمیں آپ ؐکی زندگی سے ایسے اَن گنت واقعات ملتے ہیں، جن سے ہمیں انسانیت کی خدمت کا طرز ملتے ہیں۔ لیکن بہت افسوس کی بات ہے کہ ہم سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل نہیں کرتے ۔
جب ایک انسان کے دل سے دوسرے انسان کا احترام نکل جاتا ہے تو وہ ایک جانور اور حیوان بن جاتا ہے، لیکن اگر یہ انسان توبہ کرلے،اللہ سے عفو مانگے،تو اس کے اندر ایمان کا درخت پھر سے ہرا بھرا ہو جاتا ہے اور پھر وہ دوسرے انسان کی خیرخواہی چاہتا ہے۔ اپنےجان کی پرواہ کیے بنا دوسرے انسان کو مصیبت سے نکالتا ہے، یہی انسانیت ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔