اللہ تعالیٰ ۔میرا اصلی ہَمنوا میری بات

حمیرا فاروق

دوستی پیاری ہوتی ہے مخلوق سے کرو تو بیماری ہوتی ہے، خالق سے کرو تو بڑی پیاری ہوتی ہے ۔زندگی میں ہر طرف خوشیاں جنم لیتی ہیں اور ایک انسان رب کی ذات سے لو لگا کے کبھی زوال کا شکار نہیں ہوجاتا اورنہ ہی دنیا کے سامنے رسواکن ہوجاتا ہے ۔ بلکہ اسکو ہر آن دل کا سکون قائم و دائم رہتا ہے ۔ دراصل وہ انسان اس دنیائے فانی کے رنگوں کو پہچان گیا ہوتا ہے اور اسکی حقیقتوں کو بھی ۔ وہ نہ تو بے مقصد کاموں کا بوجھ اپنے کندھوں پر رکھتا ہے اور نہ ہی فضول کاموں کی طرف جاتا ہے ۔ کیونکہ اسکو پتہ ہوتا ہے کہ یہ چیزیں میری زندگی کے نظام کو درہم برہم کرکے رکھیں گی ۔ وہ نظم و ضبط سے کام لے کر قوانین الہٰی کو اپنی زندگی میں لاگو کر دیتا ہے، جسکی وجہ سے اسکی انفرادی شخصیت کبھی بگڑتی نہیں اور نہ ہی وہ اپنی زندگی میں کسی غلط ہمراہ کو ساتھ رکھتا ہے جو اسکو گمراہی اور تباہی کی اور رہنمائی کرے۔

دنیا میں اگر دیکھا جائے تو کوئی کسی پہ اپنی جاں کیوں نہ وار دے تو لوگ پھر بھی اپنی خصلت دکھا کر رہتےہیں ۔لیکن اگر انسا ن سمجھداری سے کام لے اور وہی کام اپنے ربّ کے لیے کرے جو اصلی ہمنواہ ہے تو اس انسان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی عزت والا نہیں ہوگا، چاہے پھر انسان دنیاوی لحاظ سے کیسا بھی ہو ،امیر ہو یا غریب ۔ دنیا کے لوگ ہر اک چیز کو اپنےلیے بوجھ سمجھتے ہیں ۔ لیکن ہمارا ربّ اِتنا رحیم و شفیق ہے ،وہ بندے کو اسکی نافرمانی کے باوجود بھی کہتا ہے کہ’’ میں تمہارے لیے کافی ہوں ‘‘وہ لاکھ برائیاں دیکھ کر اپنے بندے کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا ،وہ ہر وقت اسکو معاف کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام نےبھی جب ربّ سے پوچھا کہ جب آپکو کوئی فرمابردار ،زاہد یا روزے دار بلاتا ہے تو آپ اُسے کیا کہتے ہیں تو ارشاد ہوا: میں لبیک کہتا ہوں تو اُنہوں سے پھر سے سوال کیا، جب ایک گناہ گار بلاتا ہے تو آپ اُسے کیا جواب دیتے ہے تو ارشاد ہوا، لبیک لبیک لبیک اور فرمایا کہ اے موسیٰ! ان میں سے ہر ایک اپنے اعمال پر بھروسہ کرتا ہے لیکن گناہگار میری رحمت پر بھروسہ کرتا ہے، لہٰذا اسکو میں خالی ہاتھ نہیں بھیجتا ہوں ۔

ایک انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے ماضی کو یاد کرنے کے بجائے اس سے عبرت حاصل کریں اور اپنی زندگی میں صرف ضروری کاموں کو ترجیح دے اور وقت کو صحیح استعمال کرکے فالتو لوگوں کے صحبت سے محفوظ رہے ۔ اور انسانی زندگی کا حسن بھی یہی ہے کہ وہ بے مقصد اور برے لوگوں کے ساتھ رہ کے اپنی زندگی اور قیمتی وقت برباد نہ کرے ۔ ایک انسان کی زندگی میں کچھ حادثوں کا ہونا بھی لازمی ہوتا ہے تاکہ اسکو صحیح پہچان ہوجائے اور وہ پہچان تجربے سے ہی ہوتی ہے ۔

انسان کے اندر جب اللہ کا خوف اور تقویٰ آتا ہے تو وہ زندگی میں کوئی غلط کام نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کے ساتھ ہونے دیتا ہے ۔ تب انسان حقیقی عزت سے بہرامند ہوجاتا ہے جب اسکے اندر تقویٰ آتا ہے ۔ انسان پھر دنیا کے غموں کو اپنے دل میں کوئی جگہ نہیں دیتا کیونکہ اسکو یہ یقین ہوتا ہے کہ اللہ ہمیشہ میرے ساتھ ہے ،وہ مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا  اور اللہ تعالیٰ بھی انسان کو تب ہی اپنا دوست بناتا ہے جب انسان اسکا طلبگار ہو ، وہ اُسے گمراہی سےنکال کر روشنیوں کی جانب رہنمائی کرتا ہے ۔انسان کو چاہے کتنے بھی دکھ درد ہوں، سب اللہ کے سپرد کرنا چاہیے کیونکہ وہ کافی ہے ہمارے لیے ۔ اسکے کے حضور جاکے سر بسجود ہوکر اسکو اپنا حال ِدل بیان کرنا چاہئے، وہ ضرور سنتا ہے ۔ وہ تو بن مانگ کے دیتا ہے ،اب جو اُسے مانگے اسے کیسے خالی ہاتھ لوٹائے ۔ اللہ تعالی خود فرماتےہیں کہ بندے میرے پاس آؤ اور مجھ سے مانگو کیا مانگنا ہے، میں دوں گا ،میں پھر یہ نہیں دیکھو گا تو گناہگار ہے یا نیک ۔ انسان اپنی زندگی میں پتہ نہیں کتنی planning  کررہا ہوتا ہے لیکن اگر اسکے اندر یہ احساس نہ ہو کہ موت آئے گی تو وہ حیوان سے بھی بدتر ہے ۔ موت کے بعد کسی انسان کی چال کام نہیں آئے گی اور نہ ہی انسان وہاں پہ کوئی قوت دکھا سکتا ہے ۔ وہاں نظام حق ہوگا اور حق کے پیمانوں سے اللہ تعالیٰ فیصلہ سنائےگا ۔قیامت والا دن رکھا ہی گیا ہے اسی لیے ،تاکہ اللہ تعالیٰ انصاف کرے ہر اک کے ساتھ ۔

اللہ تعالیٰ کبھی بھی کسی کی دعار د نہیں کرتا بلکہ اسکی قبولیت کا ایک مقررہ وقت ہوتا ہے ۔ انسان کتنے بھی گناہ کریں،اللہ معاف کرنے والا ہے ۔اپنے گناہوں پہ رو کر اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہئے ۔ وہ واحد دَر ہے جو ہمیشہ کھلا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ خود فرماتےہیںکہ جو بندہ مجھے منانے آتا ہے تو میں اسکے لیے کھڑا ہوکر اسکا استقبال کرتا ہوں، اب رفیق و شفیق دوست اور مہربان ساتھی دنیا میں کون ہوسکتا ہے جتنا اللہ ہے ۔ جس کے لیے ہم لاکھو ںگناہ کرنے کے بعد بھی خاص رہتےہیں۔ جو ہم سے کبھی نفرت نہیں کرتا ،جو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا، اُس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی وفاشعار ہمنواہ نہیں ہوسکتا ۔

وہ ہم گناہگاروں کو اپنے دردبار میں گناہوں کے بعد بھی قبول کرتا ہے ۔ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتےہیں کہ اگر میرے بندے کو رات کے وقت آنکھ کھل جائے تو وہ اُٹھ کر  مجھے یاد نہ کرے تو سمجھو کہ اُس میرے ساتھ بے وفائی کی اور اگر میرا بندہ اُس وقت اُٹھ کھڑا ہوا اور مجھے یاد کیا اور دعا مانگی تو میں عطا کروں گا اور اگر میں نے اسکو وہ عطا نہ کیا جو اسنے مانگا تو گویا میں نے اسے بےوفائی کی جو میں کبھی نہیں کرتا ہوں ۔ اللہ سے رشتہ وہ واحد رشتہ ہے جہاں نہ ہی جھوٹے وعدے کئے جاتےہیں اور نہ ہی کبھی بےوفائی کا خوف رہتا ہے ۔ اس ذات کے سامنے ادھوے خواب مکمل ہوجاتےہیں ۔ اسکے سامنے بہنے والے آنسوں کی قیمت ہوتی ہے ،جسے ساری نفرتیں بہا کر انسان پاک ہوجاتا ہے ۔ لہٰذا دوستی کے لائق جو ذات ہے، وہ صرف اللہ ہے، وہ آپکے لیے ناممکن کو ممکن بناتا ہے ۔ تواریخ کے کئی قصے ہمارے سامنے نمایاںہیں کہ اللہ سے دوستی کرنے کے بعد زندگی میں معجزے آتےہیں جیسا کہ ہم حضرت میمونہ بنت ولید جو حبش کی رہنے والی تھی، وہ بیڑ بکریوں کو جنگل چرانے لے جاتی تھی تو خود وہ اللہ کی عبادت میں محو ہوجاتی تھی اور انکے بیڑ بکریوں کی رکھوالی شیر کرتے تھے ،یہ تو بظاہر فطرت کے خلاف بات معلوم ہوتی ہے کہ ان دونوں میں یاری کسے ہوسکتی لیکن اللہ کے ساتھ دوستی کرکے ایک بندے کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں ۔ جب میمونہ سے سوال کیا جاتا ہے کہ شیر اور بکریوں میں صلح کیسا، تو وہ خود فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے اپنے ربّ سے دوستی کی، تب سے اِن شیروں نے میری بکریوں کے ساتھ صلح کر لی ۔ یہ ہے ربّ سے دوستی کرنے کا نتیجہ ۔ اسکے ساتھ رہ کے انسان دنیا کے ہر غم سے بھری ہوجاتا ہے ۔ لہٰذا دوستی اگر کرنی ہے تو اُسی باوفا ربّ سے کرو، جہاں نہ کبھی طعنہ ملے گا اور نہ ہی آپکو رد کیا جائے گا، نہ کبھی دشمن کا خوف لاحق ہوگا اور نہ ہی جدائی کا غم ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا دوست بنائےتاکہ ہم دنیا کے مصائب بآسانی حل کرسکیں ۔ آمین

[email protected]