اسلام کا معتدل اور متوازن معاشرتی نظام قسط(۲) فہم و فہم

فداحسین بالہامی

وجوبِ صیام کے متعلق ایک معروف آیت جو زبان زد عام و خاص ہے، میں خداوند تعالیٰ نے اپنے بندوں کو روزے کی فرضیت ساتھ ساتھ اس کے مدعا و مقصد سے بھی آگاہ فرماتا ہے۔ ’’ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ۔‘‘(آیت ۱۸۳سورہ بقرہ)
اسی آیت سے ملتی جلتی اور دو آیتیںقصاص کے متعلق قرآنِ کریم میںموجود ہیں۔اور وہ دو آیتیں بھی سورہ بقرہ میں ہی درج ہیں۔چنانچہ خداوند تعالیٰ فرماتا ہے :(ترجمہ)’’اے ایمان والو! مقتولوں میں برابری کرنا تم پر فرض کیا گیا ہے، آزاد بدلے آزاد کے اور غلام بدلے غلام کے اور عورت بدلے عورت کے۔اور قصاص(یعنی ناحق خوں کا بدلہ لینے ) میں تمہار ی زندگی ہے۔اے عقلمندو!تمہیں تقویٰ و پرہیز گاری کی راہ اختیار کرنا چاہیے۔‘‘(البقرہ ۱۷۸،۱۷۹)
ان تین آیات پر ایک ساتھ غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پہلی آیت جس میں روزہ کا حکم وارد ہوا ہے ۔ روزوں کوانسان کے باطنی تقویٰ، طہارتِ نفس اور قلبی پاکیزگی کا ذریعہ قرارا دیاگیا ہے اورمختلف قسم کے روحانی امراض کاعلاج روزوں میں موجود ہے۔دوسری جانب دیگر دو آیات ِمبارکہ میںایک تعزیریعنی قصاص کے ذریعے انسانی جان کی حفاظت کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ جس سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوںپر ایک حفاظتی ڈال کی ضرورت ہے۔انفرادی سطح پر اسے نفسانی خواہشات اور شیطان کے خفیف یورشوں کا سامنا ہے اور اجتماعی سطح پر بھی ان افراد کے ظلم و زیادتی کا شکار ہو سکتا ہے کہ جو اپنی انانیت کو برقرار رکھنے کے لئے دوسروں کے جان و مال کو غارت کرنے کی حد تک جا سکتے ہیں۔خواہشات ِ نفس کے پیدا کردہ ان مفاسد کے خاتمہ کے لئے روزہ اوراسی جیسی دیگرریاضتیں سمِ قاتل ہیں۔جو انسان کے قلب و روح کی دنیا میں اچھے میلانات کا گلا گھونٹ دیتے ہیں اور قانونِ قصاص معاشرے میں ان فاسد عناصر کے سر پر لٹکتی تلوار کی مانند ہے کہ جو حقیر مفادات کے لئے قیمتی انسانی جانوں سے کھلواڑ کرنے کی حد تک جا سکتے ہیں۔
بہ نظر غائر ددیکھا جائے تو عبادتِ الٰہی اور خوف ِ خدا کا مدعا و مقصد بھی یہی ہے کہ ایک عبادت گزار بندہ مخلوقِ خدا کے لئے جابر وظالم نہ بن جائے ۔ورگرنہ خدا وند جبار کو اسکی عبادت اور تقویٰ سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ان کا براہِ راست اور مثبت اثر عبادت گزار اور تقویٰ شعار بندے کی زندگی پر پڑتا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ مخلوقِ خدا بھی اسے کسی قسم کے دکھ اور تکلیف میں مبتلا نہیں ہوتی۔بالفاظِ دیگر خوفِ خدا کا مدعا و مقصد یہ ہے کہ خوفِ خدا سے آراستہ مومن سے مخلوقِ خدا بے خوف رہے۔وہ ہر اعتبار سے نہ صرف دیگر انسانوں کے لئے حلیم وشفیق ثابت ہو جائے۔بلکہ ہرذی حیات اس کے شر سے محفوظ ہو۔بصورت دیگر اس کی عبادتوں اور ریاضتوں کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔چنانچہ روایت میں آیا ہے کہ ’’رسولِ خداؐ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ فلاں شخص دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات عبادت میں گزار دیتا ہے لیکن بد اخلاق ہے ، اور ہمسایوں کو ستاتا ہے ،تو آنحضرت ؐ نے فرمایا: اس شخص میں کوئی اچھائی نہیں، وہ جہنمی ہے۔‘‘
مسجد سے نکلا ہوا عابدانسانی معاشرے کے تئیںاگر سودمند نہ ہو تو جان لیجئے کہ وہ عادتاً مسجد جایا کرتا ہے۔کیونکہ مسجدیں دراصل وہ انسان ساز کار خانے ہیں جہاں انسانی معاشرے کی تعمیر کے بہترین اکائیاں فراہم کی جاتی ہیں۔اسلامی معاشرے کی بنیاد تو حید کے محکم اور مستحکم تصور پر رکھا گیا ہے۔لہٰذا اسلامی معاشرے کی اصل بنیاد عقیدۂ توحید پر ہی ہے۔ توحید یعنی تمام کائنات کاا یک اور واحدخالق و مالک جس نے تمام کائنات کو بنایا ہے۔ اور انسان کیلئے کائنات کی تمام اشیاء کو مسخر کردیا ہے۔ انسان کو چاہئے کہ نہ صرف اپنے خالق کے ساتھ عبادت و ریاضت کے ذریعے رابط قائم کرے بلکہ اپنے بہترین معاملات کی بنیاد پر اپنے جیسے دیگر انسانوں کے ساتھ بھی مرتبط رہے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ اس وقت ظلم و تعدی کے ساتھ پیش آتا ہے کہ جب اسے یہ گمان ہو کہ وہ نہایت ہی بہادر اور طاقت ور ہے اور تکبر کے نشے میں چور وہ ظلم و زیادتی میں جا نکلتا ہے ۔ اس کے برعکس عقیدہ ٔتوحید ایک مومن کو یہ باور کراتا ہے کہ ایک انسان کتنا ہی بڑاذی اقتدار،ذی اختیار اور صاحبِ جاہ و حشم کیوں نہ ہو ،وہ خدائے کبیر و قادرکی بارگاہ اپنے آپ کو ذلیل و پست سمجھے ۔نتیجتاًبنی آدم کے درمیان اونچ نیچ،ذلت و عزت،صغیر وکبیر ،قدرتمندو کمزور کے تئیں عامیانہ تصور مٹ جاتا ہے۔چنانچہ قرآن مجید ایک آیت کے ذریعے عالمی سطح پر انسانی برادری کی تشکیل کا اعلان یوں کرتی ہے۔ٰ ’’انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر ہم نے تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دیئے ہیں تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو۔‘‘
اس آیت کا پہلا ہی حصّہ یعنی’’ انسانو ہم نے تم کو ایک ہی مرد اور ایک عورت سے پید ا کیا ہے ‘‘ تمام انسانوں کو عالمی برادری تشکیل دینے کی دعوت ہے۔ اور اس کی معقول اور ٹھوس وجہ بھی بتائی گئی ہے کہ خلقت کے اعتبار سے تمام انسانوں کا ایک ہی سرچشمہ ہے اور دوسرے حصّے میں انسانیت کی قبائلی ، نسلی اور صنفی کثرت کا بھی اعتراف کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کی غرض و غایت بھی بتائی گئی ہے کہ قبائل و گروہ میں انسانوں کو بانٹنے کی غرض محض ان کی شناخت و پہچان کو برقرار رکھنا ہے۔اس آیہ ٔ مبارک کے ضمن میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں افراد کے مابین آپسی روابط کا انحصار آپسی بھائی چارے پر ہے۔ کیونکہ خلقت کے اعتبار سے یہ آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ یہاں مساوات ہی مساوات ہے۔ تمام انسان پیدائشی طور پر مساوی اور برابر ہے۔ کسی انسان کو کسی انسان پر پیدائشی طور پر برتری حاصل نہیں ہے۔ ظاہر ہے جب مساوات ہر طرف کارفرماء ہو تو بنی آدم کے مابین رشتۂ اخوت و محبت استوار ہوگا۔ جہاں کہیںذات پات ،رنگ و نسل وغیرہ کی اونچ نیچ کی آمیزش ہوئی وہاں پر نفرت اپنے آپ ہی سراُبھارتی ہے۔
رابطہ۔ 7006889184
[email protected]