اسلام آیا ہے انسان کو بندشوں سے آزاد کرانے کے لئے فکروادراک

سہیل بشیر کار ،بارہمولہ

ایک مضمون پڑھتے ہوئے جب ایک بڑے اور مشہور عالم دین کے یہ الفاظ دیکھے: ’’ماں کو چاہیے کہ بچے کو باپ سے ڈراتی رہے۔‘‘ تو ذہن میں خیال انگڑائیاں لینے لگا کہ ہم تربیت کے نام پر دین کی کیسی عجیب تعبیر پیش کرتے ہیں۔روایتی معاشرہ میں جب سچے مسلمان کی تصویر ذہن میں آتی ہے تو انسان سوچتا ہے کہ ایک بدذوق، خشک مزاج اور دنیا سے لاتعلق شخص، جو مشکل سے ہنستا ہو،اکثر آہیں بھرتا رہتا ہو، دنیا کی خواہش سے دور، بے رونق زندگی بسر کرنے والا ہو، حالانکہ یہ دین آیا ہی اس لئے ہے کہ انسان کو سکون اور چین کی زندگی عطا کرے۔قرآن نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مشن یہ بتایا ہے کہ ’’ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے، ان کو دور کرتے ہیں‘‘ (اعراف 157)
جب باپ گھر آئے تو سب کونے میں جا چھپیں،بچے تو دور بیوی بھی سوال نہ کرے،بس جو کہا گیا اس حکم کی تکمیل ہو، حالانکہ میرے پیارے نبیؐ جب گھر میں ہوتے تو ان کی ازواج ان سے ہنسی مذاق بھی کرتی اور تفریح بھی کرتی ۔رسول رحمتؐ خود انہیں کرتب دکھانے کے لیے لے جاتے، آپؐ گھر کے افراد خانہ اور بچوں کے ساتھ خوب ہنسی مذاق کرتے۔بخاری شریف کی روایت ہے کہ آپؐ گھر میں اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ ہنسی مذاق فرماتے اور ان سے کہانیاں بھی سنتے تھے۔اپنے ازواج اور بچوں کے ناز نخرے برداشت کرتے۔بخاری شریف کی روایت میں ہے حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جب میں بیاہ کر آئی تو میں حضورؐ کے گھر میں بھی گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میری سہیلیاں بھی تھیں، جو میرے ساتھ مل کر گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں۔ جب حضور ؐ گھر تشریف لاتے(اور ہم کھیل رہی ہوتیں) تو میری سہیلیاں حضور ؐ کو دیکھ کر اِدھر اُدھر کھسک جاتیں لیکن حضور ؐ ان سب کو اکٹھا کرکے میرے پاس لے آتے اور پھر وہ میرے ساتھ مل کر کھیلتی رہتیں۔ابو داؤد میں ہے حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ ایک دفعہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہی تھی تو میں نے حضورؐ سے دوڑ کا مقابلہ کیا اور حضورؐ سے آگے نکل گئی۔ بعد میں میرا بدن بھاری ہوگیا تو پھر میں نے حضورؐ کے ساتھ دوڑ لگائی لیکن حضورؐ مجھ سے آگے نکل گئے اور فرمایا۔ اے عائشہ! یہ اس جیت کا بدلہ ہے جو تو نے مجھ پر پہلے حاصل کی تھی۔ابوداود کی روایت ہے ایک دفعہ حضرت ابوبکر ؓ نے آنحضرت ؐ سے گھر کے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ اندر آئے تو حضرت عائشہ ؓ کو بلند آواز میں حضورؐ کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے سنا۔ حضرت ابو بکرؓ غصہ میں آ گئے اور چاہا کہ حضرت عائشہ ؓ کو پکڑ کر ایک تھپڑ لگائیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آڑے آ گئے۔ ابو بکرؓ ، عائشہ کو کہہ رہے تھے کہ میں آئندہ تجھے حضورؐ کے سامنے بلند آواز سے بولتے ہوئے نہ سنوں۔ اور اسی غصہ میں وہ چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد حضورؐ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا۔ تو نے دیکھا ہے کہ میں نے اس آدمی کی مار سے تجھے کس طرح بچایا۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت ابو بکر ؓ دوبارہ آئے تو میاں بیوی کو راضی خوشی پایا تو کہنے لگے کہ مجھے اپنی صلح میں بھی شریک کر لو، جس طرح تم نے مجھے اپنی لڑائی میں شریک کیا تھا۔ حضورؐ نے بلاتوقف فرمایا۔ ہاں ہاں، ہم تمہیں شریک کرتے ہیں۔
ایک بار ایک صحابی عمر فاروقؓ کے دربار میں حاضر ہوتےہیں تاکہ انہیں اپنی بیوی کی شکایت کریں کہ وہ میرا نہیں مانتی ۔مزاج شناس رسول سیدنا عمرؓ کے گھر میں جوں ہی وہ داخل ہوتے ہیں، وہاں حضرت عمرؓ کی اہلیہ بھی تھوڑا تیز کلامی کر رہی تھی، چنانچہ حضرت عمر ؓ اپنی طبیعت کی وجہ سے سخت مزاج تھے، مگر اہل خانہ کے ساتھ محبت و پیار سے رہتے تھے۔ایک شخص اپنی بیوی کے وجہ سے بہت دکھی تھا، چاہتا تھا کہ مجھے اجازت ملے اور میں بیوی کو دو چار جوتے لگوادوں۔وہ حضرت عمر ؓ کے پاس اپنی بیوی کی شکایت کرنے کے لیے آیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میری زوجہ کو دیکھو،یہ میرے لیے خانسا ماں کے مانند ہے، میری روٹی بنانے والی دایہ ہے ،میری کپڑے دھونے والی دھوبن ہے،میرے بچوں کو دودھ پلانے والی آیا ہے، وہ میرے دل کو سکون پہنچاتی ہے اور حرام کام سے بچ جاتا ہوں۔تو میں بھی اس کی ان باتوں کو برداشت کر لیتا ہوں۔
علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں:’’ہنسنا ایک انسانی خصلت ہے اور عین فطری عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان ہنستے ہیں اور جانور نہیں ہنستے ہیں۔ کیوں کہ ہنسی اس وقت آتی ہے جب ہنسی کی بات سمجھ میں آتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ سمجھ داری جانوروں میں نہیں ہوتی ہے۔
چوں کہ اسلام دین فطرت ہے، اس لیے اسلام کے سلسلے میں یہ تصور محال ہے کہ وہ ہنسنے ہنسانے کے فطری عمل پر روک لگائے گا۔ بلکہ اس کے برعکس اسلام ہر اس عمل کو خوش آمدید کہتا ہے جو زندگی کو ہشاش بشاش بنانے میں مددگار ثابت ہو، اسلام یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پیروکار کی شخصیت بارونق، ہشاش بشاش اور تروتازہ ہو۔ مرجھائی ہوئی بے رونق اور پژمردہ شخصیت اسلام کی نظر میں ناپسندیدہ ہے۔‘‘
رسول اللہؐ اپنے ساتھیوں (صحابہ کرامؓ) کے ساتھ بالکل فطری انداز میں زندگی گزارتے تھے اور ان کے ساتھ ان کی خوشی، کھیل اور ہنسی مذاق کی باتوں میں شرکت فرماتے تھے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح ان کے غموں اور پریشانیوں میں شریک رہتے تھے۔
میں نے ایک بار کچھ دین دار بچیوں کو دیکھا جو بہت آہیں بھرتی تھیں، ان کے ہاں صرف جہنم کا تذکرہ ہوتا۔میں نے انہیں کہا کہ تم لوگ جتنی آہیں بھرتی ہو، لگتا ہے کہ ان آہوں سے اتنے آسمان پر بادل چھا جائیں گے اور برسہا برس دھوپ نہیں نکلے گی ۔پھر میں نے انہیں کہا کہ آپ نبوی معاشرہ دیکھیں وہاں خواتین کی چمک دھمک تھی، وہاں مارکیٹ انسپکٹر ایک خاتون تھی، وہاں خواتین کی محفلیں ہوتی تھیں، جس میں چھوٹی بچیاں گاتی ۔تم لوگوں نے دین کو ایسا بنایا ہے کہ دین اسلام کا اگر کوئی شعوری طور پر کام کرنا چاہتا ہے تو اس کو خوف محسوس ہوتا ہے۔ایسے ہی کچھ اشخاص کو دیکھا جن کا جس قدر ’’تقویٰ‘‘ بڑھا اس قدر آنکھیں چھوڑی ہوتی گئی ،مشکل سے سلام کا جواب دیتے ہیں۔میں نے ان میں سے ایک کو کہا بھائی دور نبویؐ میں تو زندگی تھی، یہ کیا مردہ پن سوار کیا ہے۔ہمارے معاشرہ میں اب بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو جب خواتین کو ڈرائیونگ کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کو معیوب سمجھتا ہے، اگر بچیاں سکوٹی چلائے تو یہ عجیب لگتا ہے حالانکہ دور ِنبوی میں ہماری خواتین شہسوار ہوا کرتی تھیں۔بدقسمتی سے مذہبی افراد کی اب شادی کی محفلیں بھی بے رونق لگنے لگی ہے، کچھ جگہوں پر راقم نے دیکھا کہ مہندی رات کو وعظ و تبلیغ ہوتی ہے، ایک دوست کی شادی پر دعوت ولیمہ کے موقع پر ایک صاحب کھڑے ہوئے اور وعظ و تبلیغ شروع کی، میں نے اس کو کہا کہ وعظ و تبلیغ کا اپنا موقع و محل ہے۔شادی کی محفل میں شادی بیاہ کے موقع پر دَف بجانا، ڈھول ڈھمکا، اچھے اشعار گانے، غزلیں، مہندی لگانا،سب جائز ہے، شرط صرف یہ ہے کہ اسراف نہ کیا جائے، بے ہودہ و نازیبا کلام نہ ہو اور نہ ہی کسی کو تکلیف پہنچائی جائے۔
دور نبوت میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ کے ساتھ ہنسی مزاح کرتے تھے۔سنن ابوداؤد کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہ ذات خود مختلف مواقع پر گھڑ دوڈ کے مقابلے منعقد کراتے اور جیتنے والے گھوڑے کے مالک کو انعام سے نوازتے۔(سنن ابوداؤد 2577)
ایک دیہاتی صحابی حضرت زاہربن حرامؓ سرکارِ دوعالمؐ کی خدمتِ اقدس میں دیہات کی چیزیں بہ طورِ تحفہ لایاکرتے تھے ۔ آقاؐان کو شہر کی چیزیں تحفہ دیا کرتے تھے ۔ وہ اگرچہ زیادہ خوش شکل نہیں تھے مگر حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بہت زیادہ محبت فرماتے ۔ ایک دن وہ بازار میں بیٹھے کچھ سامان بیچ رہے تھے ۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے سے آکر آنکھوں پر اپنا دستِ مبارک رکھ دیا اور فرمایا:’’اس غلام کو کون خریدتا ہے ؟‘‘ مزاح کا یہ انداز کتنا دل کش، حسین و جمیل اور جود و عطا والا ہے کہ سرکارِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابی حضرت زاہرؓسے خوش طبعی تو فرما رہے ہیں، ساتھ ساتھ اُن کی قسمت بھی چمکا رہے ہیں، انہیں خوداپنی زبانِ نبوت سے ’’غلام‘‘ کہہ کر پکار رہے ہیں۔
ایک شخص نے حضور انورؐ سے سواری مانگی، ارشاد فرمایا:’’ہم تمہیں اونٹنی کے بچے پر سوار کریں گے ۔‘‘اس نے عرض کیا،میں اونٹنی کے بچے کا کیا کرونگا؟ فرمایا: اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے ۔ حضرت محمود بن ربیع انصاری خزرجیؓپانچ سال کے تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے، ان کے گھر میں ایک کنواں تھاجس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی نوش فرمایااور خوش طبعی کے طور پر پانی کی ایک کلّی حضرت محمود بن ربیعؓ کے چہرے پر ماری۔(بخاری شریف) محدثینِ کرام ؒ فرماتے ہیں کہ اس کی برکت سے ان کو وہ حافظہ حاصل ہواکہ اس قصہ کو یاد رکھتے اور بیان فرماتے، اس وجہ سے صحابہ میں شمار ہوئے ۔ حضرت امام ترمذی نے حضرت انس ؓ سے روایت کی کہ ایک بوڑھی صحابیہ بارگاہِ نبویؐ میں عرض گزار ہوئی ،یارسول اللہ !دعا فرمائیے اللہ تعالیٰ مجھ کو جنت میں داخل فرمائے ۔سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہِ مزاح اسے کہا کہ بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی۔ اتنے میں نماز کا وقت ہوگیا۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نماز اداکرنے کے لیے مسجد تشریف لے گئے ۔ اس بوڑھی عورت نے رونا شروع کردیا ،خوب روئی یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے عرض کی ،یارسول اللہ! جب سے آپ نے اس بوڑھی عورت کو یہ فرمایا ہے کہ کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائےگی،اُس وقت سے یہ زار وقطاررورہی ہے ۔حضورؐیہ سن کر ہنس پڑے ،فرمایا:بے شک جنت میں کوئی بوڑھی عورت نہیں جائے گی(بلکہ جوان ہوکر جائیں گی)،ارشادِ باریِ تعالیٰ ہے ۔’’بے شک ہم نے ان عورتوں کو خاص طور پر پیدا کیا اور پھر انہیں کنواریاں بنایا۔‘‘(شمائلِ ترمذی)
سیدنا انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک صحابی ظاہر بن حرام تھے جو دیہات میں رہتے تھے۔ ایک بار وہ شہر کے بازار میں کچھ فروخت کر رہے تھے تو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پیچھے سے اپنے بازوؤں کے حصار میں لے لیا مگر اس نے پیارے آقاؐ کو نہ دیکھا تھا۔ تو وہ پکارے کون ہے؟ مجھے چھوڑو۔ لیکن جب اس نے دیکھا کہ پیارے نبیؐ ہیں تو وہ اپنی کمر کو زور لگانے لگا تاکہ رسول اللہؐ کے سینہ مبارکہ سے ملائے رکھے۔ نبی اکرمؐ نے (ازراہِ مذاق) پکارا کہ اس غلام کو کون خریدے گا تو وہ بولا یارسول اللہؐ، اللہ کی قسم اگر آپ مجھے بیچیں گے تو بہت کم قیمت ملے گی۔ میرے پیارے آقا ؐ نے فرمایا البتہ اللہ کے ہاں تو بے قیمت نہیں ہے۔( شرح السنہ)
اگر کوئی شخص اس طرح اسلام پیش کرتا ہے تو ہم جلد ہی اس کو ماڈرن اسلام یا آسان اسلام کا لقب دیتے ہیں حالانکہ آپؐ کا یہ ارشاد نقل ہوا ہے کہ ’’ تم لوگ آسانیاں پیدا کرنے والے بنو، تنگی نہ کرو خوشخبریاں سناؤ، دوسروں کو متنفر نہ کرو ۔( ابروا ولا تمروا بشروا ولا تنفروا ) ( صحیح بخاری:۲۹ صحیح مسلم:1734) اللہ کے رسولؐ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب بھی دو معاملوں میں کسی ایک کو اختیار کرنے کا موقع ہوتا تو آپ سے آسان ترین معاملے کومنتخب فرماتے ، اس شرط کے ساتھ کہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو۔ ( صحیح بخاری: 4786 صحیح مسلم: 2327)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :دین آسان ہے اور دین میں جو سختی اختیار کرے گا، اس پر غالب ہوکر رہے گا ﴿یعنی وہ دین سے بے زار ہوجائے گا تو میانہ روی اختیارکر اور دین کے قریب رہو، ثواب کی امید میں خوش رہو، صبح و شام اور اخیر رات کی سرگرمی ﴿اس سے مراد ان اوقات میں عبادت ہے، سے مدد چاہو۔‘‘(بخاری)
البتہ واضح رہے کہ ہنسی، مذاق میں کسی کا دل دکھانا نہیں چاہیے اور جھوٹ نہیں بولنا چاہیے: ’’ تباہی ہے اس شخص کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کی خاطر جھوٹی باتیں کرتا ہے ۔ اس کے لیے تباہی ہے ۔ اس کے لیے تباہی ہے ‘‘۔(ترمذی :۵۱۳۲)
(رابطہ :9906653927)
�������������