ادیب، اَدب اور آزادیِ اظہار تحریر

ڈاکٹر اشرف لون

ادب کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں ۔ کسی نے ادب کو محض حظ پہنچانے کا ذریعہ قرار دیا ہے اور کوئی اسے سماج میں تبدیلی کا ایک ہتھیار سمجھتا ہے۔ لیکن یہ بات اب طے ہے کہ ادب کا اپنے سماج اور ماحول جس سماج اور ماحول میں وہ لکھا جاتا ہے ، سے گہرا تعلق ہے۔ ایک ادیب اپنے ماحول ، سماج اور آس پاس کی سیاست سے آنکھ چرا کر کوئی تخلیق نہیں لکھ سکتا ہے۔ اور جو بھی ایسا کرتے ہیں یعنی اپنے سماج وغیرہ سے کٹ کر کوئی’ ادبی تحریر‘ لکھتے ہیں ، اس کا حشر وہی ہوتا ہے جو کسی سرکاری پروپگنڈہ یا پمفلٹ کا ہوتا ہے۔
سب سے پہلے بحیثیت ادب کے طالب علم کے ہمیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ کوئی بھی تخلیق خلا میں وجود میں نہیں آتی۔ کسی بھی تحلیق کے پیچھے ادیب کا نقطہ نظر ہوتا ہے جس کے تحت وہ کوئی فن پارہ لکھتا ہے۔ وہ قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ دنیا ایسی ہے یا ایسی ہونی چاہیے یا ایسی بھی ہوسکتی ہے اور یہ کہ یہ میرا نقطہ نظرہے۔ ضروری نہیں کہ ہر قاری اس سے متاثر ہو یا اس کی باتوں سے یا اس کے پیش کیے گئے کرداروں کی گفتگو یا عمل سے اتفاق رکھتا ہو۔ لیکن ہمیں معلوم ہے کہ ادیب یا شاعر نے کوئی تخلیق پیش کی ہے۔ کبھی کبھی وہ کرداروں کے مکالموں سے قاری کو چونکاتا بھی ہے۔لیکن اس چونکانے میں کوئی نعرے بازی نہیں ہونی چاہیے نہ ہی کوئی پروپگنڈہ۔ پروپگنڈہ سے مراد یہاں اپنا نقطہ نظر زبردستی تھوپنا یا ناول یا افسانے کے کردار سے ہٹ کر بیچ بیچ میں اپنی تخلیق میں ایسے جملوں کی بھرمار کرنا جس سے قاری اُکتا جائے اور اسے لگے کہ ادیب کو اپنے فن پر بھروسہ یا قدرت حاصل نہیں اور نہ اپنے کرداروں پر۔اس لیے وہ قاری کا کالر پکڑ کر اُسے اپنی بات منوانے پر تُلا ہوا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ادبی تخلیق جلد ہی کوئی سیاسی پمفلٹ بن کر رہ جاتی ہے اور تخلیق اس مقام تک نہیں پہنچ پاتی جس کی ایک ادبی تخلیق متقاضی ہوتی ہے۔ سارتر کے مطابق ادیب قار ی کو مہذب انداز میں اور جذباتیت کی بھینٹ چڑھائے بغیر اپنے ساتھ شریک ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ ایک سچا اور بڑا ادیب کوئی بلند بانگ دعوے نہیں کرتا اور قاری کی آزادی کا احترام کرتا ہے اور ساتھ ہی نئی آزادی کی دعوت بھی دیتا ہے۔ جارج آرول نے اپنے مضمون ’’ میں کیوں لکھتا ہوں‘‘ میں لکھا ہے:
’’ جب میں لکھنے کے لیے بیٹھتا ہوں،میں اپنے آپ سے یہ نہیں کہتا کہ مجھے فن کا کوئی نمونہ پیش کرنا ہے۔میں اس لیے لکھتا ہوں کیوں کہ مجھے کسی جھوٹ کا پردہ فاش کرنا ہوتا ہے، کسی حقیقت کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اور میرا پہلا مقصد ہی ہوتا ہے کہ میری بات کو سُنا جائے۔ لیکن میں کوئی کتاب ہو یا کسی رسالے کا طویل مضمون نہیں لکھ سکتا اگر میرے لیے یہ جمالیاتی تجربہ نہ ہو۔‘‘
آرول کی ان باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ادب و فن میں جہاں مقصد و منصب کی اہمیت ہے وہیں ہم ادب وفن کی جمالیات کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اور اگر ایسا ہوا تو ہماری تحریر یا تو کوئی اخباری رپورٹ بن کر رہ جائے گی یا پھر کوئی سیاسی یا سماجی پمفلٹ۔
تامل ناول نگار پیرومل موروگن کے مطابق تحریر شدہ الفاظ سماج پر اثر انداز ہونے کی طاقت رکھتے ہیں۔ یہ تحریر شدہ لفظ ہی ہے جو سماج میںکسی بھی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوتا ہے یا بن سکتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ لفظ کی حرمت اور بڑھانی یقینی ہے اور ہمیں لفظ کی اس حرمت کا احترام کرنا چاہیے اور اس کا استعمال صحیح معنوں میں کرنا چاہیے۔ کیا ہمارے تحریر شدہ لفظ سے سماج پر کوئی بُرا اثر تو نہیں پڑ رہا ہے اور کیا یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا واقعی کوئی مثبت اثر پڑرہا ہے۔ لفظ کی تقدیس بہرحال سب پر مقدم ہے۔
بقول پیرومل موروگن’’ یہ تحریر شدہ لفظ ہی ہے جو سماج کی فرسودہ رسومات پر سوال اٹھائے گا۔یہ ان رسوم اور خرافات کی بنیادی کمزوریوں اور نقائص کو سامنے لائے گا۔ ان کو مختلف ذاویہ نظر سے دیکھے گا۔ یہ لفظ مظلوم کی حمایت کرے گا اور ظالم کو ظلم سے روکے گا‘‘۔ پریم چند، منٹو، عصمت چغتائی ، بیدی ، انتظار حسین وغیرہ جیسے ادیبوں نے ایسا ہی کام کیا ہے۔ انہوں نے فرسودہ رسوم کے خلاف آواز اٹھائی ۔ مظلوم کی حمات میں لفظ کا استعمال کیا۔ یہاں پر ادب اور ادیب کی آزادی کا سوال بھی کھڑا ہوتا ہے۔ ایک ادیب یا شاعر یا دانشور کو ایسی آزادی حاصل ہونی چاہیے کہ وہ آسانی اور بنا کسی خوف کے الفاظ کا استعمال اور اپنی بات دوسروں کے سامنے رکھ سکے ، تبھی وہ ایک اچھی اور پُرمعنی تخلیق پیش کرسکتا ہے۔ کسی بھی ادیب پر پابندی دراصل لفظ پر پابندی ہے۔
ادیب کو اتنی آزادی حاصل ہونی چاہیے کہ وہ جو چاہیے لکھے۔ایسا نہیں کہ کوئی بھی ادیب کچھ بھی لکھے اور وہ کامیاب ہوگا بلکہ سماج میں ہمیشہ قارئین کا ایک ایسا گروہ موجود رہتا ہے جو کسی بھی ادیب کو یا تو قبول کرتا ہے یا رد کرتا ہے۔ لیکن حکومت یا ریاست کی طرف سے ایک ادیب کو یہ آزادی یا تحفظ حاصل ہونا چاہیے کہ وہ جو کچھ لکھنا چاہے لکھے اور کسی چیز پر تنقید کرنا چاہے تو کرے۔کیونکہ ادیب کا کام صرف خشک تاریخیں اور واقعات بیان کرنانہیں بلکہ جیسا کہ پہلے ہی اس بات کا ذکر ہوا کہ ایک ادیب الفاظ کے ذریعے اپنا نقطہ نظر بھی بیان کرتا ہے۔ یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان تحریر شدہ الفاظ میں کوئی معنی بھی چھپے ہوتے ہیں جو ایک ادیب قاری تک پہنچانا چاہتا ہے۔
تاناشاہی اور ڈکٹیٹر شپ میں ادیبوں اور دانشوروں کو بہت مشکلات و پابندیوں کا سامنا رہتا ہے۔ ایسے ممالک میں اظہار خیال کی آزادی پر کئی کدگنیں عائد ہوتی ہیں۔ کیوں کہ کوئی بھی تاناشاہ یا ڈکٹیٹر اپنے خلاف ایک چھوٹا سا لفظ بھی برداشت نہیں کر پاتا ہے۔ یہ پہلے وقتوں میں بھی ہوتا آیا ہے اور آج بھی مختلف ممالک میں ہورہا ہے، جہاں آمریت اور ڈکٹیٹرشپ کی حکومت ہے۔ ان ریاستوں میں ادیبوں کو یا تو جلاوطن کیا گیا یا پھر انہیں کچھ وقت کے لیے خاموشی اختیار کرنی پڑی۔ متعدد بار ادیبوں و دانشوروں کو جھوٹے الزمات میں پھنسا کر جیل میں ڈال دیا گیا۔اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ادیب کی آزادی یا لفظ کی طاقت سے انکار کرنا گمراہ کن بلکہ جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ یہ الگ بات ہے سرکاری بہی خواہ یا قصیدہ خواں کے ادب سے مختلف تقاضے ہوسکتے ہیں جو وقتی طور پر تو اس کو تو انعام و اکرام کے ذریعے فائدہ پہنچاسکتے ہیں لیکن اس سے ادب کو کچھ فائدہ نہیں پہنچتا اور آنے والے وقت میں ایسے ادیب و بہی خواہ طاق نسیان بن جاتے ہیں۔
یہ ایک طرح کی اظہارِ خیال آزادی اور بہتر حالات ہی ہیں جس نے آج ہمیں سیاہ فام ادب کا ایک بڑا ذخیرہ فراہم کیا ہے۔فرانز فینن، جیمس بالڈوِن، چنوا اچیبی، ٹانی موریسن وغیرہ نے مزاحمتی ادب لکھا۔ ان ادیبوں نے یورپی سامراجیت اور نسل پرستی کے خلاف اپنی آواز بلند کی اور اس آواز کو الفاظ کا جامہ پہنایا۔ یہ تب ہی ممکن ہوا جب ادبیوں کو ریاست یا حکومت کی طرف سے وہ ماحول، جگہ اور آزادی فراہم ہوئی۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے ان ادیبوں نے پہلے اس آزادی کے لیے آواز اٹھائی اور ریاست اور سماج سے اس کا تقاضا کیا۔ اس آزادی کے لیے قربانیاں پیش کیں۔ انہوں نے اس جگہ اور آزادی کا صحیح استعمال کیا اور مزاحمتی ادب کا ایسا ذخیرہ فراہم کیا جو دنیا کی دوسری مظلوم قوموں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوا اور آئیندہ بھی ہوتا رہے گا۔ ادب، مزاحمت اور آزادی کی مثال میں دَلِت ادب کی مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ جس کا باضابطہ آغازبھیم رائو امبیڈکر سے ہوا۔ حالانکہ امبیڈکر سے پہلے بھی دلت ادب لکھا گیا ، اردو میں بھی اور ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی لیکن اس کے تخلیق کار زیادہ تر ’’اعلیٰ طبقہ‘‘ سے تھے۔ یہ1947کے بعد ہی ہو ا جب ہندوستان میں دلتوں کے حقوق کے لیے باضابطہ آواز اٹھائی جانے لگی۔ اس میں دلتوں کے رہنما امبیڈکر اور دوسرے مفکروں اور دانشوروں نے اہم رول ادا کیا اور دلت خود اپنے الفاظ میں اپنے حقوق کی بات کرنے لگے اور خود اپنا ادب لکھنے لگے۔ اس دوران میں انہوں نے غیر دلت ادیبوں کے لکھے گئے ادب پر بھی تنقید کی۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس سب کے لیے آئین نے انہیں آزادی میسر کی اور ان کے حقوق کا تحفظ کیا۔ حالانکہ یہ کسی بھی صورت میں تسلی بخش نہیں تھی اور آج بھی دلتوں پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے لیکن بہرحال آج دلتوں کی اپنی کئی ادبی اور سیاسی تنظیمیں ہیں، جو ان کے حقوق کی بات ان ہی زبان میں کرتی ہیں۔
مختصراََ اعلیٰ ادب تخلیق کرنے کے لیے ایک ادیب کو آزادی حاصل ہونی چاہیے: اظہار رائے کی آزادی ۔کئی ممالک میں ادیب کی آزادی ِاظہارکے لیے قوانین موجود ہیں۔کیونکہ سما ج کی ترقی میں الفاظ و ادیب کی آزادی اہم رول ادا کرتی ہے۔ جمہوریت میں یہ آزادی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ایک ادیب بنا کسی خوف کے اپنی بات سامنے رکھ سکے۔ ریاست کو ایک ادیب کی حفاظت اور اس کے لکھنے کی آزادی کو یقینی بنانا ہے۔سارتر نے اپنی کتاب ’’ ادب کیا ہے‘‘ میں لکھا ہے:
’’ چاہے وہ مضمون نگار ہو، پمفلٹ(رسالہ) لکھنے والا، طنز نگار ، ناول نگار۔ چاہے وہ بطور ایک انفرادی خواہش کا اظہار کرے یا سماجی نظام کو اپنا یا اپنے الفاظ کا نشانہ بنائے، ایک ادیب کا بحیثیت ایک آزاد آدمی کے دوسرے آزاد آدمی سے خطاب کا ایک ہی موضوع ہوتا ہے۔۔۔آزادی۔‘‘
���
جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی[email protected]