سرینگر// نیشنل کانفرنس نے کہا ہے کہ جب بھی کوئی کشمیری اپنے وطن کی تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہوئے 9اگست 1953ءکے خونین اور جمہور کش اقدام کے واقعات پڑھ لیتا ہےں، تو اُس کو اپنے وطن عزیز کی آج کی تباہی و بربادی کی تمام تر جڑیں اِسی دن کی قیامت خیزی میں پیوست نظرآتی ہیں اور 5اگست2019کو حکومت ہند نے پھر ایک بار وشواس گھات کرکے جمہوریت اور آئین کا گلا گھونٹ کر دفعہ370اور35اے کو یکطرفہ طور پر ختم کردیا۔ایک بیان میں نیشنل کانفرنس کے معاون جنرل سکریٹری نے کہا کہ 9اگست 1953تک ہماری ریاست تین معاملات کو چھوڑ کر ہر لحاظ میں آزاد اور خودمختار تھی، لیکن ایک گہری سازش کے تحت اس دن رات کی تاریکی میں شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ کو دیگر سینکڑوں حامیوں کے ہمراہ جمہوری اور دستوری قدروں کی بیخ کنی کرتے ہوئے فوجی نرغے میں لیا گیا اور انہیں کشمیر کی وادیوں سے دور تپتے ریگستانوں میں اسیر زندان بنایا گیا۔ فقط ایک دن میں 3100بے گناہ شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی روز بخشی غلام محمد کو جموں وکشمیر کا کٹھ پتلی وزیر اعظم بنایا گیا اور اُن کے اقتدار کو تحفظ دینے کی غرض سے دہلی اور دیگر ملحقہ ریاستوں سے پہلی مرتبہ پولیس اور فوج منگوا کر ریاست کے طول و عرض میں تعینات کردی گئی۔ تب سے اب تک ریاست پر فورسز کا غلبہ مستحکم کرنے اور جمہوری اقتدار کی وقعت گٹھانے کے کئی اقدام ہوتے رہے ہیں اور بالآخر بھاجپا حکومت نے بدترین سیاسی انتقام گیری سے کام لیتے ہوئے جمہوریت اور آئےن کو تار تار کرکے یہاں کی خصوصی پوزیشن کو مکمل طور پر ختم کرکے اس تاریخی ریاست کو دو لخت کردیا گیا۔کمال نے کہا کہ 9اگست1953کو جمہور کش اقدامات کے لئے دروازہ کھول کر جمہوریت کے دعویداروں نے ریاست کی آزادی اور خودمختاری کا قلع قمع کرنے کے لئے وزیر اعظم اور صدرِ ریاست کے عہدوں کا تنزل کیا۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس ریاست جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کی بحالی کے عزم کو دہراتی ہے اور یہاں کے عوام کی یہ آبائی جماعت اس خطہ ارض کی اندرونی خودمختاری کی بحالی تک اپنی جدوجہد جاری و ساری رکھے گی۔