سرینگر//ریاست میں آئینی ترمیم اور ریزرویشن سے متعلق حالیہ صدارتی حکم نامہ کو چلینج کرتے ہوئے بار ایسو سی ایشن سے وابستہ2سنیئر وکلاء نے ریاستی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے اس فرمان کو غیر قانونی قرار دیکر کالعدم کرنے کی درخواست پیش کی۔بار صدر ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم کے ذریعے عدالت عالیہ میں پیش کی گئی عرضی میں مرکزی کابینہ،مرکزی وزارت قانون و انصاف،مرکزی وزارت داخلہ اور ریاستی چیف سیکریٹری کو پارٹی بنایا ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ20جون2018کو گورنر کی طرف سے ایک حکم نامہ زیر نمبر P-1/18 of 2018 آئین کی مختلف دفعات کے تحت جاری کیا گیا،جس کے تحت ریاستی اسمبلی کو تب تک معطل کرنے کی ہدایت دی گئی جب تک گورنر کا حکم نامہ منسوخ نہیں ہوتا،جبکہ اسی روز گورنر کی طرف سے ایک اور حکم نامہ(تفویض نمائندگی) قانون2018(گورنر ایکٹ نمبر 1 of 2018) بھی جاری کیا گیا،جس کو فوری طور پر نافذ کیا گیا،اور یہ حکم نامہ بھی تب تک جاری رہے گا جب تک پہلا والا حکم نامہ منسوخ نہیں ہوتا۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ سرکاری حکم نامہ 1033-GAD of 2018 محرر21جون کے تحت ریاستی انتطامی کونسل کو بھی منظوری دی گئی،جس کے تحت گورنر کو اس کا چیئرمین جبکہ مشیروں کو ممبران اور چیف سیکریٹری کو کونسل کا سیکریٹری بنایا گیا،اور مشیروں کو وزیروں کے اختیارات دئیے گئے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ صدر ہند نے آئین ہند کیء دفعہ356 کے تحت حاصل اختیارات کو بروائے کار لاتے ہوئے19دسمبر2018کو ایک حکم نامہ زیر شمارہ G.S.R. 1223(E) of 2018 جاری کیا،جس کے تحت ریاستی آئین کے تحت گورنر کو حاصل اختیارات از خود حاصل کئے،جبکہ اس بات کا اعلان کیا کہ ریاستی قانون سازیہ کو حاصل اختیارات،پارلیمنٹ کے زیر ہونگے۔ ایڈوکیٹ محمد اشرف بٹ اور ایڈوکیٹ عادل عاصمی کی طرف سے ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم کی طرف سے ریاستی ہائی کورٹ میں پیش کی گئی عرضی میں کہا گیا ہے کہ مرکزی وزارت داخلہ نے28فروری 2019کو آئین ہند کی دفعہ356کی صریحاً خلاف ورزی کر کے ریاستی سرکار کی ریاستی آئین کے1954کے حکم نامہ میں ترمیم کی تجویز کو منظوری دی،جس کے تحت آئین کی77ویں ترمیم ایکٹ1995اور103ویں ایکٹ2019 کو جموں کشمیر میں نافذ کیا۔عرضی میں کہا گیا کہ مرکزی وزارت داخلہ نے آر ڈی ننس’(جموں کشمیر ریزرویشن) (ترمیم) کو منظوری دی اوراس ترمیم کے تحت ریاستی ریزوریشن ایکٹ2004 میں ترمیم کی گئی۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ عرضی گزار جو کہ کافی وقت سے از خود وکالت کرتے ہیں،کو اس بات کا یقین ہے کہ ان ترامیم کو مرکزی وزارت داخلہ نے بغیر اختیار و صلاحیت مرکزی کابینہ کی منظوری کے بعد اجرا ء کیا۔عرضی میں اس حکم نامہ کو’’ غیر آئینی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ’ آئین ہند زبردستی جموں کشمیر میں نافذ نہیں ہوتا،اور اس کا اختیار دفعہ370کے تحت ریاست کو حاصل ہے،جس میں جموں کشمیر میں آئین ہند کو نافذ کرنے کیلئے طریقہ کار فراہم کیا گیا ہے،اور یہ کہ اس میں ریاستی حکومت کی مشاورت یا منظوری ہونی چاہئے۔‘‘ عرضی میں کہا گیا ہے کہ آئین ہند کی دفعہ370کے تحت ریاستی حکومت کا مطلب’’مہاراجہ‘‘ یا صدر ریاست ،جو کہ وزراء کی مشاورت کے بعد فیصلہ لینگے،اس لئے کوئی ایک یا ہر ایک صدارتی حکم نامہ جو آئین ہند کا حصہ ہو،اور اس کا اطلاق ریاست میں کرنا ہو،کو ریاستی سرکار کی منظوری یا مشاورت لازمی ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ77ویں اور103ویں آئینی ترمین،جو کہ آئین ہند کا حصہ ہے،کا اطلاق ریاستی حکومت کی منظوری اور مشاورت کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔درخواست گزار وں کا ماننا ہے کہ20جون کے بعد پہلے ریاستی اسمبلی کو معطل کیا گیا اور بعد میں تحلیل کیا گیا،اس لئے ریاست میں وزراء کی کونسل موجود نہیں،اور ریاستی گورنر کو دفعہ370کے تحت اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ وہ اس طرح کی آئینی ترمیم کو منظوری دے۔عرضی میں وزراء کی کونسل کو کسی بھی منظوری کیلئے لازمی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مہاراجہ ریاست کا خود مختار سربراہ تھا،تاہم اس کے باوجود انہوں نے5مارچ1948کے حکم نامہ میں وزراء کونسل کا اندارج کیا،اور اسی کونسل کو ریاستی ذمہ داریوں سونپ دیں۔انہوں نے کہا کہ مہاراجہ میں وزراء کونسل کی سفارش پر ہی عمل درآمد کرسکتا ہے۔عرضی میں کہا گیا کہ دفعہ370 شق 1(ب) میں جموں کشمیر کے گورنر کا کوئی بھی وجود نہیں ہے،جبکہ وزراء کی عدم موجودگی کے نتیجے میں بھی وہ قانونی طور پر کوئی منظوری دینے کا اختیار رکھتے ہیں۔عرضی میں کہا گیا کہ گورنر کی طرف سے آئین کی منظوری’’یکطرفہ‘‘ کاروائی ہے جو کہ انکے حد اختیار میں نہیں ہے اور غیر آئینی عمل ہیں۔ عرض گزاروں نے کہا ہے کہ صدر ہند کی طرف سے آئین ہند کی دفعہ370کے تحت جاری کئے گئے حکم نامہ،کے بعد انہیں جموں کشمیر ریزرویشن ایکٹ2004میں ترمیم کا کوئی بھی اختیار نہیں ہے،جو کہ ریاستی عمل کے زمرے میں آتا ہے۔عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ جموں کشمیر ریزرویشن(ترمیم) آر ڈی ننس2019اور آئینی ترمیم آرڈر2019کو غیر قانونی قرار دیکر اور کو منسوخ کیا جائے