۔5جون،عالمی یوم ماحولیات

سرینگر// عالمی سطح پر5جون کو یوم ماحولیات منایا جاتا ہے جبکہ اقوام متحدہ نے امسال یوم ماحولیات کے حوالے سے’’فطرت سے عوام منسلک‘‘ موضوع منتخب کیا گیا ہے۔ادھر جموں کشمیر میں آبی ذخائر اور جنگلوں و مٹی کے کٹائو موسمی تغیر و تبدیلی کا باعث بن رہی ہے جبکہ ارضیاتی ماہرین کا ماننا ہے کہ شبانہ درجہ حرارت میں اضافہ اور برف کے مقابلے میں بارش کی مقدار زیادہ ہو رہی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے1972میں انسانی ماحولیات کی متحدہ قومی کانفرنس منعقد کی۔1973میں سب سے پہلے عالمی یوم ماحولیات منایا گیا،جس کے بعد ہر گزرتے سال اس دن کو مختلف موضوعات کے تحت منایا جاتا ہے۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ دنیا میں جنت کے نام سے پہچانے جانے والی وادی کشمیر بھی ماحولیاتی آلودگی سے پاک نہیں رہی ۔کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ ارضی سائنس کے سربراہ پروفیسر شکیل احمد رمشو کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر بالخصوص وادی میں گزشتہ 25برسوں سے آبی ذخائر پر ناجائز قبضے اور جنگلوں کے بے تحاشہ کٹائو کی وجہ سے یہاں کے ماحول کو بہت نقصان پہنچا ہے۔انہوں نے کہا کہ دریائے جہلم کے دونوں کناروں کو بھی نا صرف سکڑایا گیا بلکہ غلاظت سے لبریز کیا گیا جس کی وجہ سے آبی آلودگی پیدا ہوئی جو کل ملاکر یہاں کے حساس ماحول کیلئے زہر ناک ہے۔پروفیسر رامشو نے گاڑیوں کی بڑھتی تعداد سے صوتی آلودگی اور صحت افزا مقامات پر گندگی و غلاظت کے ڈھیر جمع کرنے کے علاوہ لاتعداد لوگوں کے جمع ہونے سے بھی گلیشر پگھلتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شہری علاقوں میں اندھادھند اور بے ترتیب تعمیراتی عمل سے بھی یہاں کے ماحیولیات کو زک پہنچ گیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ دیگر ریاستوں اور خطوں میں صنعتوں کی جس بھر مار سے ماحولیات میںسب سے زیادہ بگاڑ پیدا ہوا ہے قسمت سے ابھی تک کشمیر اس سے بچا ہوا ہے ۔ ماہر ارضیات شکیل احمد رامشو نے مزید کہا کہ ماحول میں آلودگی کے ساتھ ہی موسمی تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہے اور اس کا خمیازہ بھی ہمیں ہی بھگتنا پڑتا ہے۔انہوں نے2014میں آئے تباہ کن سیلاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر چہ1903بعد میں1950کی دہائی میں بھی برے اور تباہ کن سیلاب آئے تاہم ان سے زیادہ نقصان نہیں ہوا اور گزشتہ سیلاب کے دوران حکومت نے از خود اس بات کا اعتراف کیا کہ ایک لاکھ کروڑ کے نقصانات سے دو چار ہونا پڑا۔انہوں نے کہا کہ آپ ماحول کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرو گے تو ماحول بھی اپنا ردعمل دکھا کر آپ کے ساتھ چھیر چھاڑکرے گا۔ڈاکٹر راتھر کے مطابق دنیا کے کئی حصوں کے زیر آب آنے کے خطرات پیدا ہو چکے ہیں، تو دوسری جانب کئی خطوں میں بارشوں میں کمی اور قلت آب کے ساتھ ساتھ خشک سالی اور غذائی بحران کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ وادی میں زیر کاشت رقبہ تشویشناک حد تک کم ہوتا جا رہا ہے جب کہ جنگلات کو کاٹنے کا عمل تیزی سے جاری ہے  جس کی وجہ سے ریاست کوحالیہ چند برسوں میں کئی قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ ارضیاتی سائنس کے سربراہ پروفیسر شکیل رامشو نے موسمی تغیررات کو عالمی حدت سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ’’ ارضیاتی شبانہ درجہ حرارت میں اضافے کے بدولت موسمی تغیرات کے سبب پہاڑوں پر واقع گلیشیئر اور قطبی برف کی تہہ تیزی سے پگھل رہے ۔رامشو نے کہا کہ گذشتہ ایک صدی کے دوران جموں وکشمیر کے درجہ حرارت میں معمول کے درجہ حرارت سے 1عشاریہ2ڈگری سلشیس اضافہ ہوا ہے جبکہ اسی مدت کے دوران عالمی درجہ حرارت کی اوسط میں 0عشاریہ8ڈگری اضافہ ہوا ہے ۔ انہوںنے کہا کہ اگر چہ ماہرین مانتے ہیں کہ موسمی تغیر اور گلوبل ورامنگ ایک عالمی صورتحال ہے لیکن کشمیر پر اس کے نمایاں اثرات ہیں ۔ان کا ماننا ہے کہ جموں وکشمیر کے قدرتی وسائل برف ، پانی اور بر فانی خطے تیزی سے پگھل رہے ہیں ۔پروفیسر رامشو کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر میں درجہ حرارت میں اضافہ زمینی خدوخال اور زمینی سطح سے اونچائی پر منحصر ہے جبکہ عام طورپر یہ دیکھا گیا ہے کہ ہمالیاتی اور زمین کے دیگر پہاڈی سلسلوں میںحدت زیادہ ہوتی ہے تاہم درجہ حرارت جگہ کی نسبت سے تبدیل ہوتاہے اور درجہ حرارت محل وقوع،عرض بلد،طول بلد اور سطح سمندر سے اونچائی کی مناسبت سے ہوتاہے ۔رامشونے کہا کہ موسمی تغیر کے اثرات زمینی سطح پر پہلے ہی محسوس کئے جا رہے ہیں اورناقابل اعتبار برف باری اور بارشوں کاطرز ،غیر معمولی طور پر سرد موسم میں گرمی کی شدت حقیقت میں جموں وکشمیر کی ماحولیاتی تغیرات کی خصوصیات ہیں ۔