۔35اے ہٹانے کی صورت میں اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل فریق بنے گا: خالدہ شاہ

 سرینگر//عوامی نیشنل کانفرنس کی صدربیگم خالدہ شاہ نے کہا ہے کہ 35Aکے تحت ہی کشمیر تنازعہ کو سیکورٹی کونسل میں اٹھایاگیاہے اور اگر عدالت عظمی 35A کو ہٹائے گا تو پھر سیکورٹی کونسل بھی خود بخود سپریم کورٹ میں ایک فریق بن جاتا ہے۔ایک بیان میں بیگم خالدہ شاہ نے کہا کہ اب جبکہ 35 A  کی آج بات ہو رہی ہے، پہلے دفعہ 370   کے بجائے یہ دفعہ 306 A  تھا جو NC  کی مجلس عاملہ کے غیر معمولی اجلاس 1951   میں شیخ عبداللہ کی سربراہی میں رد کیا گیا۔انہوں نے کہاکہ یہ دفعہ 306 A ہندوستان کے ساتھ مکمل ادغام تھا ،شیخ محمد عبداللہ نے ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی سے استعفیٰ دینے کی دھمکی دیکر دفعہ 370   کا وجود عمل میں لایا ۔بیگم خالدہ شاہ نے کہاکہ’’ آج 35 A  کو ہٹانے کا ہنگامہ کھڑا کیا گیا ہے جبکہ 1846  میں بیعنامہ امرتسر اور 1952  کے دہلی ایگر نمنٹ میں بھی 35 A  کے تحت شہری حقوق کا دفاع ہوا ہے اور آرٹیکل 35  A  کے تحت ہی ہندوستان نے سیکورٹی کونسل میں متنازعہ کشمیر کے مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے ،کیا ان حالات میں جب سپریم کورٹ کے ذریعہ 35 A  کو ہٹانے اور شہری حقوق کا جنازہ نکالنے کی سرگرمیاں ہو رہی ہیں،تو پھر سیکورٹی کونسل بھی خود بخود سپریم کورٹ میں ایک فریق بن جاتا ہے‘‘۔ انہوںنے کہاکہ جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ آئینی اور اقتصادی رشتوں کی دغا بازی کا آغاز 9 اگست1953 سے شروع ہوا جب ڈاکٹر کرن سنگھ نے شیخ محمد عبداللہ کی حکومت کو ختم کرانے کیلئے جو کارروائی کی اس کا کیا کوئی آئینی،اخلاقی یا قانونی جواز تھا؟۔ خالدہ شاہ نے کہاکہ شیخ محمد عبداللہ اگر اسمبلی کا اعتماد کھو چکے تھے تو آئینی اور جمہوری طریقہ یہ تھا کہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جاتی ،اس آئینی طریقہ کو ترک کرکے ایک سازش کے زریعہ ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اس کے بعد سازشوں کا یہ سلسلہ آج تک کسی نہ کسی بہانے اپنا یا جارہا ہے۔خالدہ شاہ نے کہاکہ اْس وقت مرکزی اور ریاسی سرکار نے شیخ محمدعبداللہ کو معزول اور گرفتار کرکے دعویٰ کیا کہ وہ کشمیر کو ایک آزاد مملکت بنا کر خود کو سلطانِ کشمیر بنانا چاہتے تھے اس سلسلہ میں امریکہ کے ری پبلکن لیڈر مسٹر ایڑوائی سٹیون سن کی سرینگر میں شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ ملاقات پر کئی انکشافات کئے جانے لگے اوریہ مہم بھی چلائی گئی کہ ان کے کچھ بدیشی ملکوں کے ساتھ روابطہ ہیں اور کشمیر کی آزادی کا اعلان کرنے والے ہیں۔اس کے بعد 11 سال تک کشمیر سازش کیس کی آڑ میں اسیری کی زندگی گذارنے پر ان کو مجبور کیا گیا۔سچائی کی ہمیشہ فتح ہوتی ہے،1964 میں مرکزی سرکار کو خود ساختہ کشمیر سازش کیس واپس لینا پڑا۔بہر حال یہ تو اریخ ہے ،حقائق ہیں۔
 
 

ہند نواز جماعتیں ہی خصوصی پوزیشن کو کمزور کرنے کی ذمہ دار

عمر عبداللہ کے بیان پر حریت(گ) کا سخت رد عمل 

سرینگر//حریت (گ) نے سپریم کورٹ میں دفعہ 35-Aکی منسوخی کے حوالے سے دائر کردہ عرضی کے خلاف بے مثال عوامی احتجاج پر نیشنل کانفرنس کی طرف سے اپنی روائتی ہندنوازی کا ایک بار پھر برملا اظہار کرنے کو عوام کے مجروح جذبات کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق اُڑانے کی ناکام کوشش قرار دیا۔ حریت  نے مسئلہ کشمیر کو نیشنل کانفرنس سمیت جملہ ہندنواز جماعتوں کی دین قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا واضح موقف بھارت کے ساتھ کسی مشروط الحاق کو ردّ کرتے ہوئے حقِ خودارادیت کا مطالبہ ہے جس کے لیے پوری قوم نے پچھلے 70برسوں کے دوران مثالی قربانیوں پیش کی ہیں۔ حریت نے آئین ہند میں درج دفعہ 35-Aاور دفعہ 370کا تحفظ فراہم کرنے کو ریاست جموں کشمیر کی مقامی ہندنواز جماعتیں اپنی قوم کا بدترین استحصال کرنے کے لیے شرمناک سیاسی حربوں کے طور استعمال کیا جاتا رہاہے۔ ان دفعات کی آئینی صورت کو مسخ کرنے کے لیے سبھی طرح کی ہندنواز جماعتوں کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ حریت نے نیشنل کانفرنس کے کاگزار صدر اور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ سے سوال کیا کہ کہ انہیں 35-Aکے خلاف عوامی احتجاج کی اپیل کرنے میں ہماری طرف سے مسئلہ کشمیر کا حل آئین ہند کے دائرے میں تلاش کرنے کی تُک کیونکر سوجھی، جبکہ آئین ہند کے دفعہ 35-Aاور دفعہ 370کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا بنانے کے لیے نیشنل کانفرنس سمیت سبھی ہندنواز جماعتوں کا ماضی داغدار رہ چُکا ہے۔ حریت نے اپنی قوم سے ایسی سبھی ہندنواز سیاسی جماعتوں کی ریشہ دوانیوں اور منافقانہ چالوں سے خبردار رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اگر دفعہ 370اور 35-Aکی روشنی میں ریاست جموں کشمیر کا اپنا علیحدہ آئین ، اپنا صدر اور وزیر اعظم ہونے کے علاوہ یہاں کی عدالت عظمیٰ کا چیف جسٹس اور بیروکریسی سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ آفیسران کے لیے یہاں کا پشتنی باشندہ ہونا ضروری ہے۔ تو یہاں کے عام لوگ یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ صدر اور وزیر اعظم تو درکنار یہاں کے محکمہ پولیس، بیروکریسی اور عدلیہ میں بیرون ریاست کے آفیسروں کی غالب اکثریت کو کن حکمرانوں نے کس ضابطے کے تحت یہاں کے مقامی باشندوں پر مسلط کردیا ہے؟ حریت کانفرنس نے بھارت کے آئین میں درج دفعہ 35-Aاور دفعہ370کے نام پر ریاست جموں کشمیر کے عوام کا سیاسی استحصال کرنے کی مزید اجازت نہ دینے کے عہد کا اعادہ کرتے ہوئے ریاست کے مسلم اکثریتی کردار کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے منصوبوں کو کامیاب ہونے نہیں دے گی۔ حریت  بیان میں واضح کیا گیا کہ ہمارا غیر متزلزل موقف حقِ خودارادیت کا حصول ہے اور آئین ہند میں درج مذکورہ دفعات یہاں کے اسٹیٹ سبجیکٹ قانون کو ختم کرکے ریاست کے مسلم اکثریتی کردار کو تبدیل کرنے کی گھناؤنی سازش ہے، جبکہ ان دفعات کا سیاسی استحصال کرنا ہندنواز جماعتوں بالخصوص نیشنل کانفرنس کی کل سیاسی جمع پونجی رہی ہے اور ریاست کے اندرونی خودمختاری کو ختم کرنے کے لیے نیشنل کانفرنس کو ہی استعمال کیا گیا ہے اور باقی سبھی ہندنواز جماعتیں ان کی تقلید کرتی آرہی ہیں۔ حریت کانفرنس نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے مطالبہ کیاہے کہ وہ بھارت کی طرف سے ریاست کے آبادی کے تناسب کو تبدیل کئے جانے کے خفیہ اور اعلانیہ منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے اور مسئلہ کشمیر جیسے دیرینہ تنازعہ کو جلد از جلد حل کرنے میں اپنا کردار نبھائیں۔
 

کشمیر ،لداخ اورجموں کی شناخت کوسنگین خطرہ لاحق

عمرعبداللہ اورانجینئرغیرذمہ دارانہ بیانات سے احتراز کریں :یاسین خان

سری نگر//وادی کے ایک سرکردہ ٹریڈلیڈرحاجی محمدیاسین خان نے یہ اندیشہ ظاہرکیاہے کہ اگردفعہ35Aکونقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی توکشمیرکشمیریوں کا،لداخ لداخیوں کااورجموں جموں واسیوں کانہیں رہے بلکہ بیرون ریاستی باشندے یہاں آکرتینوں خطوں میں اپناغلبہ قائم کریں گے ۔انہوں نے عمرعبداللہ اورانجینئررشیدپرغیرذمہ دارانہ بیانات دینے کاالزام عائدکرتے ہوئے کہاکہ آج جب ریاستی عوام اپنی شناخت اورمنفردحیثیت کوبچانے کیلئے متحداورمنظم ہیں توکچھ لوگ بلاوجہ نفاق پرمبنی باتیں کرتے پھررہے ہیں ۔ کشمیراکنامک الائنس کے چیئرمین اورکشمیرٹریڈرس اینڈمینوفیکچررس فیڈریشن کے صدرحاجی محمدیاسین خان نے عمرعبداللہ کی جانب سے دفعہ 35Aکے معاملے پرمزاحمتی خیمے کی جدوجہدکی تنقیدکومضحکہ خیزقراردیتے ہوئے کہاکہ موصوف اپنے سیاسی مستقبل اوراہمیت کولیکرعدم تحفظ کاشکارہوئے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ یہ آئین ہندکوقبول کرنے کامعاملہ نہیں ہے بلکہ یہ منفردحیثیت اورشناخت کامسئلہ ہے جس کیلئے ریاست کے تینوں خطوں کے لوگوں نے ہوشمندی اورآپسی اتحادویکجہتی کامظاہرہ کیاہے ۔انہوں نے کہاکہ آج جبکہ سبھی لوگ متحدہیں اورباہمی اتحادپرزوردے رہے ہیں توعمرعبداللہ کوکیاسوجی کہ انہوں نے غیرذمہ دارانہ بیان دے ڈالا۔یاسین خان نے کہاکہ عمرعبداللہ جیسے لوگوں کوجب اپناسیاسی وجودہچکولے کھاتانظرآتاہے تووہ بے تکی باتیں کرنے لگتے ہیں ۔ کشمیراکنامک الائنس کے چیئرمین نے مزیدکہاکہ ہم سب کویہ بات ذہن نشین رکھناہوگی کہ اگر35Aکومنسوخ کیاجاتاہے تواقوام متحدہ سلامتی کونسل کی منظورکردہ رائے شماری کاباب بھی بندہوجائیگا۔انجینئررشیدکوہدف تنقیدبناتے ہوئے حاجی محمدیاسین خان نے کہاکہ ممبراسمبلی رائے شماری کی آوازتوبلندکرتے ہیں لیکن اُنھیں دفعہ 35Aکی منسوخی کے منفی اثرات ومضمرات کاذرابرابر بھی اداراک یااحساس نہیں ۔انہوں نے کہاکہ عمرعبداللہ اورانجینئررشیدجیسے لوگوں کوسیاسی پختگی اوراخلاص کاعملی ثبوت فراہم کرتے ہوئے یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ دفعہ35Aریاستی عوام کی شناخت اوروجودسے جڑاایک مشترکہ معاملہ ہے۔