۔3 نومبر کو پہنو فوجی کیمپ کے نزدیک نوجوان کی ہلاکت

سرینگر/پولیس اور انتظامیہ نے جنوبی ضلع شوپیان کے پہنو علاقے میں 3اور4نومبر کو فوج کی طرف سے ایک شہری رئیس احمد کو گولیوں کا نشانہ بناکر ہلاک کرنے کے واقعے پر بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے اسے ذہنی مریض قرار دیا،جبکہ اس بات کی وضاحت کی انتباہی طور پر ہوا میں گولیاں چلانے کے بعد بھی مہلوک شہری  کیمپ کی جانب پیش قدمی کرتا رہا۔ واقعہ سے متعلق آئی جی کشمیر نے انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پولیس تھانہ شوپیان کو3نومبر کی درمیانی شب 3بجے فوج کی44آرآر کیمپ پہنو سے ٹیلی فون پر اطلاع دی کہ ایک نامعلوم شخص نے فوجی کیمپ کے حصار کو عبور کیا اور فوجی کیمپ کی دیوار کے نزدیک آیا۔رپورٹ میں کہا گیا’’سنتری نے اگر چہ ہوا میں گولیاں چلائیں تاہم اس کے باوجود مذکورہ شخص نہیں رکا اور کیمپ کی جانب پیشقدمی کی،جس کے نتیجے میں سنتری نے اس پر گولی چلائی،اور وہ موقعہ پر ہی جاں بحق ہوا‘‘۔پولیس رپورٹ میں کہا گیا  ہے کہ اس واقعہ کی نسبت  ایک کیس زیر نمبر335/2018زیر دفعات447,A/511 آر پی سی درج کر کے تحقیقات کی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ تحقیقات کے دوران مذکورہ شہری کی شناخت رئیس احمد ساکن بی گام کولگام کے بطور ہوئی،اور یہ بات بھی سامنے آئی کہ وہ ذہنی مریض تھا۔ پولیس کی طرف سے یہ رپورٹ بشری پاسداری انجمن انٹرنیشنل فورم فار جسٹس کی طرف سے اس ہلاکت کی مناسبت سے انسانی حقوق کے مقامی کمیشن میں 6نومبر کو عرضی زیر نمبرSHRC/380/SPN/2018 کے ردعمل میں کمیشن میں پیش کی گئی۔ ضلع ترقیاتی کمشنر شوپیاں کی طرف سے کمیشن میں پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ تحصیلدار شوپیاں نے ایک رپورٹ زیر نمبر1615/Tec/Spn/MM/18-19محرر13دسمبر2018 پیش کی،جس میں کہا گیا ہے کہ3نومبر کی رات کو پہنو شوپیاں میں گولیوں کے چلنے کی آوازیں سنائی دیں اور پہنو فوجی کیمپ کے نواح میں دوسرے روز گولیوں سے چھلنی ایک نعش برآمد ہوئی،جس کی بعد میں شناخت ذہنی مریض ریاض احمد وانی ولد عبدالحمید وانی ساکن بی گام کولگام کے بطور ہوئی۔رپورٹ میں مزید کہا گیا  کہ فوری طور پر امداد کی بنیاد پر مہلوک شخص کے والد کو ضلع انتظامیہ نے ریڈ کراس فنڈ سے می50ہزار روپے کی معاونت کی۔عرض گزار نے اس دوران سوالیہ انداز میں پوچھا’’ فوج معیاری عملیاتی ضوابط کا تعاقب کیوں نہیں کرتی اور پھر انہیں جنگجو یا انکے معاونین کیوں قرار دیا جاتا ہے۔‘‘