سرینگر// عالمی و بائی بیماری نے جموں کشمیر کی معاشی صورتحال کو ابتر کردیا ہے۔اگر چہ ابھی صرف 21دن ہی لاک ڈائون کو ہوئے ہیں لیکن اس سے قبل ہی وادی کے کئی شعبے بیٹھ گئے تھے۔ خاص کر سیاحتی شعبہ، جس کے ساتھ کئی دیگر بھی شعبے منسلک ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں مزدور اور دیگر لوگ براہ راست وابستہ ہیں۔اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کورونا لاک ڈائون کا عرصہ زیادہ چلے گا تو قریب10 لاکھ لوگوں کے روزگار پر خطرہ منڈلاتا رہے گا۔29اپریل کے بعد تجارتی مراکز، چھوٹے بڑے کارخانے،بازار،تعلیمی ادارے اور دیگر تجارتی شعبے مکمل بند ہیں۔جبکہ ٹرانسپورٹ کا پہیہ بھی جام ہے۔لگاتار لاک ڈائون کے نتیجے میں لاکھوں مقامی و غیر مقامی لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس عرصے میں قریب5لاکھ لوگوں کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا،جس کے نتیجے میں ان کے گھروں کے چولہے بھی ٹھنڈے ہوگئے ہیں۔ تجارتی و صنعتی انجمنوں کے مشترکہ پلیٹ فارم کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریزکا کہنا ہے کہ لاک ڈائون اور بندشوں کے نتیجے میں وادی میںسب سے زیادہ نقصان سفری و سیاحت شعبے،دستکاری،خدمات(سروس) ،ٹرانسپورٹ اور پیدواری صنعت( مینو فکچرنگ انڈسٹری) کو پہنچتا ہے۔،جس کے نتیجے میں ان شعبہ جات میں روزگار پر براہ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کشمیر اکنامک الائنس نے بتایا کہ پچھلے سال کورونالاک ڈائون کے دوران10لاکھ لوگوں کو اپنے روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ پچھلے دو سال سے کورونا کی تباہ کاری جاری ہے اور جموں کشمیر جیسے چھوٹے علاقے میں قائم کارخانے اور دیگر تجارتی مراکز بند ہونے سے عوام کے سبھی حلقوں پر اثر پڑرہا ہے۔کشمیر ٹریڈرس اینڈمینو فیکچرس فیڈریشن کے صدر محمد صدیق بقال کاکہنا تھا کہ ہوٹل،ریستوراں،ہاوس بوٹ،ٹورسٹ گاڑیاں،شکارا اوراس سے جڑے دیگر کام بندہیں جس کی وجہ سے تجارتی شعبے سے جڑے لوگوں کو روزگار سے محروم ہونا پڑا ہے۔جوائنٹ کارڈی نیشن کمیٹی سٹی سینٹر کے جنرل سیکریٹری فرحان کتاب نے بتایا کہ دکانداروں کے ساتھ سیلز مین اور دیگر لوگ بھی وابستہ ہوتے ہیں،اور لاک ڈائون کی وجہ سے براہ راست سیلز مینوں کے روزگار پر اثرات مرتب ہوتے ہیں،کیونکہ گزشتہ دو برسوں کی بندشوں کے بعد دکاندار سیلز مینوں کی تنخواہوں کو لاک ڈائون کے دوران برداشت نہیں کرسکتے۔