سرینگر// وادی میں 133روز تک مکمل ہڑتال،کرفیو،شہری ہلاکتوں،توڑ پھوڑ اور گولیوں و ٹیر گیس شلنگ کی گونج کے بعد مزاحمتی قیادت کی طرف سے ہڑتال میں2دنوں تک دی گئی ڈھیل کے پہلے روزسرینگر اور وادی کے جنوب و شمال میں معمول کی زندگی بحال ہو گئی ۔8 جولائی کو حزب کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعدوادی کے یمین و یسار میں نہ تھمنے والی احتجاجی لہر کا سلسلہ شروع ہوا،جس کے ساتھ ہی فوج و نیم فوجی دستوں اور پولیس کی طرف سے گولیوں کی گن گرج،ٹیرگیس،مرچی گولوں اور پیلٹ بندوقوں سے نکلنے والے چھروں کی وجہ سے ایک سو سے زائد شہری ہلاکتیں پیش آئیں اور اسپتالوں میں قطار در قطار زخمیوں کا تانتا بندھا رہا اور کروڑوں روپے مالیت کی املاک تباہ ہوئی۔فورسز کی فائرنگ سے متواتر طور شہر ی ہلاکتوں کیخلاف پر تشدد احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر وادی کے شمال وجنوب کو کرفیو کی زد میں لایا گیا تھا جس دوران وادی بھر میں133 دنوں تک غیر یقینی صور تحا ل بنی رہی۔ 19ہفتوں تک مسلسل کشمیر بندھ کی کال کے پیش نظر پوری وادی میں ہو کا عالم رہا تاہم سنیچر کوشہر سرینگر سمیت وادی کے شرق و غرب میں دکانیں ، کاروباری ادارے اور بینک کھل گئے جس کے ساتھ ہی امتحانات میں شامل ہونے والے امیدواروں کی بھاری تعداد بھی امتحانی مراکز تک آسانی سے پہنچ گئے۔ وادی میں گذشتہ 133 دنوں میں پہلی مرتبہ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ نمودار ہوا، پہلی مرتبہ ایک ساتھ تمام کاروباری اور تجارتی ادارے کھل گئے،پہلی مرتبہ سرکاری دفاتر میں معمول کے مطابق کام کاج ہوتا رہا۔وادی کی سڑکوں پر ہفتہ کو گاڑیوں کا سیلاب امڈ آیا جس کی وجہ سے سری نگر کے سیول لائنز علاقے میں ٹریفک جام کے بدترین مناظر دیکھنے کو ملے۔ہڑتال میں دو روزہ ڈھیل کے پیش نظر وادی کے سبھی علاقوں بشمول سری نگر میں کڑاکے کی ٹھنڈ کے باوجود تقریباً سبھی دکانیں اور تجارتی مراکز ہفتہ کی علی الصبح ہی کھل گئے تھے جبکہ اہلیان وادی نے بھی جم کر شاپنگ کی۔لالچوک ، ریذیڈنسی روڑ ، کوکربازار، مائسمہ، گائو کدل اور پائین شہر کے دیگر علاقوں جن میں صفاکدل، قمرواری، نوہٹہ، راجوری کدل، گوجوارہ، رعناواری، شامل ہیں دکانداروں نے اپنی دکانیں کھول رکھی تھی اور مختلف اقسام کے اشیا اپنی دکانوں پر سجارکھی تھیں جبکہ جگہ جگہ ریڈوں پر بھی سبزیاں میوہ،اور ملبوسات کیساتھ ساتھ دیگر اشیا کے اسٹال لگائے گئے تھے۔ اے ٹی ایم مشینوں پر لوگوں کی لمبی قطاریں نظر آرہی تھیں جو رقومات نکالنے کیلئے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے جبکہ یہی حال ادویات کی دکانوں پر بھی تھا جہاں لوگوں کی بڑی تعداد جن میں بزرگ اور خواتین بھی شامل تھیں ادویات حاصل کرنے کیلئے بے تاب نظر آرہے تھے۔ دوسری جانب پائین شہر میں واقع تاریخی جامع مسجد کے اردگرد گذشتہ ساڑھے چاہ ماہ سے جاری محاصرہ ہٹالیا گیا جس کے بعد جامع مارکیٹ میں دکانیں اور تجارتی مراکز کھل گئے۔ اس تاریخی جامع مسجد میں گذشتہ 19 ہفتوں کے دوران ایک بھی دفعہ نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ مورخین کے مطابق 1842 ء کے بعد ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ جب کسی حکومت نے سری نگر کی تاریخی جامع مسجد کو مسلسل چار ماہ تک مقفل رکھا۔ 19 ویں صدی میں اس تاریخی مسجد کو سکھ حکمرانوں نے 1819 ء سے 1842 ء تک مسلسل 23 برسوں تک بند رکھا تھا۔ ادھر5ماہ بعد اسکولوں میں گھنٹیاں بھی بج گئی اور بچے خوشی خوشی اسکولوں کی طرف روانہ ہوئے،تاہم کئی اسکولوں میں رقعت آمیز مناظر بھی دیکھنے کو ملے کیونکہ پیلٹ بندوق سے نکلنے والے چھروں کی وجہ سے زخمی ہوئے کئی ساتھیوں کو اپنی ہم جماعت نے کلاسوں میں نہیں پایا۔پلوامہ میں بھی133دنوں کے بعد ہڑتال میں ڈھیل کے ساتھ ہی کاروباری مرکاز کھل گئے جبکہ سڑکوں پرٹریفک چلنے لگا تاہم نمائندے کے مطابق ٹہاب میں دکانیں بند رہیں۔ادھرنامہ نگار سید اعجاز کے مطابق جنوبی کشمیر کے قصبہ ترال میں بھی 133روز بعد قصبے کے تمام چھوٹے بڑے سرکاری دفاتر کھل گئے جہاں بازاروں میں عرفہ جیسی صورت حال دیکھنے کو ملی ۔دور دراز علاقوں سے مرد وزن 5 ماہ کے وقفے کے بعد قصبے میں داخل ہو ئے ۔ کالج میں لائبیریوں کے باہر بھی طلباء کو کتابیں حاصل کرتے ہوئے دیکھا گیا ، جہاں اکثر نوجوان اپنے دوستوں اور عزیزوں سے پرنم آنکھوں سے ملاقات اور خیر عافیت پوچھنے کے مناظر بھی دیکھے گئے ہیں ۔ جنوبی کشمیر کے کھریو، پانپور، اونتی پورہ، وین، سنگم،شوپیان، زینہ پورہ، کیلر اور را جپورہ ، سامبورہ، پاہو،رتنی پورہ، چاڈورہ، کاکہ پورہ، نامن ، لرو، پانپور، کھریو، وانپورہ، پاری گام، کزورہ، لدو، کریم آباد، ایندر، گڈورہ، نیوہ، حسن ونی، رہموہ ،مورن،ڈاڈورہ ، شنکرپورہ اور دیگر دیہات بھی شامل ہیں میں عام کاروبار بحال ہو گیاجس دوران لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے غذائی اجناس ، ادویات اور دیگر اشیائے ضروریہ کی خرید و فروخت عمل میں لائی ۔نامہ نگار ملک عبدالاسلام کے مطابق اننت ناگ قصبہ میںمیںتمام دکانیں، ہر طرح کے کاروباری ادارے کھل گئے اور گاڑیوں کی آمد ورفت بھی شروع ہو ئی ۔ صبح سے لوگوں نے جم کر اشیائے ضروریہ کی خریداری کی ۔ ویری ناگ اور ڈورو میں خاصی چہل پہل دیکھی گئی۔ بیشتر پرائیوٹ تعلیمی ادارے کھلے رہے ۔کولگام میں بھی ہرطر ح کا کاروبار شروع ہوا اور تعلیمی وتجارتی سرگرمیاں بھال ہو ئیں۔اس دوران اگرچہ133 روز کے بعد بانڈی پورہ ضلع بھر میں بازار کھل گئے لیکن رونق لوٹنے کے ساتھ ساتھ مایوسی کی فضا چھائی ہوئی دکھائی دی ۔نامہ نگار عازم جان کے مطابق لوگ اگر چہ بازارون کو گشت کر رہے تھے تاہم پرانے کنڈم نوٹوں کی وجہ سے خریداری نہ ہوسکی۔وادی میں گزشتہ چار ماہ سے زائد مسلسل ہڑتال اور احتجاج کے بعد شمالی کشمیر میں لوگوں کی کافی گہما گہمی دیکھنے کو ملی ۔نامہ نگار غلام محمد کے مطابق شمال کشمیر کے بیشتر مضافات ،قصبہ جات میں تمام پروائٹ اور گورنمنٹ سکول کھل گئے ۔ سینچر صبح سے ہی بازاروں ،سڑکوں اور سکولوں میں رونقیں لوٹ آئے، بازاروں میں لوگوں کی کافی گہما گہمی کو دیکھنے کو ملی دکانات میں بھی لوگوں کی کافی بھیڑ نظر آئی۔ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کا بھی کافی رش کے منظر سے جگہ جگہ پر ٹریفک جام دیکھنے کو ملا ۔قصبوں اور ضلعی ہیڈ کواٹروں پر چھاپڑی فروشوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر نظر آئے۔سکولوں میں بھی طلاب کی خاصی حاضری دیکھنے کو ملی ۔کپواڑہ ، ہندواڑہ، بڈگام ،یہی صورتحال بڈگام ،ٹنگمرگ،کپوارہ ،ہندوارہ، چاڈورہ ،پٹن، ماگام، بیروہ اور وادی کے دیگر قصبہ جات میں دیکھنے کو ملی۔گاندربل،کنگن اورصفا پورہ میں کل لوگوں نے بازاروں کا رخ کرکے خرید و فروخت کی جس کے دوران راشن گھاٹوں پر لوگ لمبی لمبی قطاروں میں راشن حاصل کررہے تھے ۔ ادھر شوپیاں میں پولیس نے تحریک حریت کے تحصل صدر محمد امین آہنگر کے گھر پر چھاپہ مارا جبکہ مقامی لوگوں کے مطابق چک امام صاحب میں واقع محمد امین کے گھر میں توڑ پھوڑ کی گئی۔انہوں نے کہا کہ فورسز اور پولیس آنگر کی تلاش میں تھے تاہم جب وہ گھر میں نہیں ملے تو مکان کی کھڑکیوں اور دروازوں کو توڑا گیا۔