سرینگر//وادی میں12ویں جماعت کے نتائج میں سرکاری اسکولوں نے اگرچہ بیشتر مضامین میں اول پوزیشن حاصل کی،تاہم 2014اور2016 کے مقابلے میں کامیابی کی شرح تنزلی کا شکار ہوگئی۔ ریاستی بورڑ آف اسکول ایجوکیشن نے پیر کو12ویں جماعت کے نتائج منظر عام پر لائے جس کی روسے کامیاب امیدواروں کی مجموعی شرح 51.77 رہی جو مجموعی طور پر گزشتہ ایک دہائی میں کامیاب امیدواروں کی شرح سب سے کم رہی اور ایک مرتبہ پھر ان نتائج نے تعلیمی سرگرمیوں پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے قبل سال 2007 میں12ویں جماعت میں کامیاب طلاب کی شرح44.62 رہی تھی،تاہم بعد میں کامیابی شرح میں اضافہ ہوا تھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سال 2008کے دوران اگرچہ امرناتھ قضیہ اور مابعد ایجی ٹیشن کی وجہ سے افراتفری کا ماحول تھا اور کئی ماہ تک اسکول بند بھی رہے تاہم اس کے باوجود کامیابی کی شرح12ویں جماعت میں 53.50 فیصدریکارڈ کی گئی۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ2009میں شوپیاں میںآسیہ و نیلوفر کا واقعہ پیش آنے کی وجہ سے بھی سال بھر اتھل پتھل کا ماحول تھا اور ہڑتال کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند بھی رہے تاہم اس کے باوجودامتحانی نتائج کی شرح 55.10فیصدرہی ۔2010کی ایجی ٹیشن میں قریب3ماہ ہڑتال میں ہی گذر گئے اور125ہلاکتوں سے جنوب و شمال میں غیر یقینی ماحول پیدا ہوا،تاہم 55.51 فیصد طلاب نے کامیابی درج کی۔ ذرائع نے بتایا کہ سال2014میں وادی میں صدی کا تباہ کن سیلاب آیا،جس کے نتیجے میں نہ ہی اسکول کھلے اور نہ ہی درس و تدریس کی سرگرمیاںجاری رہ سکیںیہاں تک کہ طلاب کی نصابی کتابیں بھی سیلاب کی نذر ہوگئیں تاہم جب نتائج برآمد ہوئے تو کامیابی کی شرح 55.18شرح فیصدرریکارڈ کی گئی۔یہی پر بس نہیں ہوا،بلکہ سال2016کی ایجی ٹیشن کے دوران قریب5ماہ تک اسکول بند رہے،ہزاروں طلاب پیلٹ کا نشانہ بن گئے اورمتعدد جان بحق ہوئے تاہم امتحانی نتائج میں کامیابی شرح فیصد 75.47رہی جو 16سالوں کی سب سے زیادہ شرح فیصد ریکار ڈ کی گئی ۔سال گزشتہ بھی کامیاب امیدواروں کی شرح 61.44فیصدرہی۔