سرینگر//21مارچ کوجنگلات کا عالمی دن تھا۔ جنگلات انسانی بقا کیلئے انتہائی ضروری ہیں لیکن اگر ان کی ہیت کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا تو انسانی زندگی کی نوعیت بدل جائے گی اور بنی نواع انسان کے نشو ونما پر اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔پچھلے دو دہائیوں سے زائد عرصے تک جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی وجہ سے2014کے سیلاب کے ہیبت ناک مناظر ابھی نظروں سے اوجھل نہیں ہوئے ہیں۔حکام کا کہنا ہے کہ جموںوکشمیر میں 42اَقسام کے جنگلات پائے جاتے ہیں جو یوٹی کی جنگلی ماحولیاتی نظام کی تنوع کی علامت ہیں اور وہ 144.16 مکعب میٹر فی یونٹ رقبے پر لکڑی کے حجم کے لحاظ سے سر فہرست ہے۔ گزشتہ برس کے دوران جنگلات کے احاطہ میں 20 فیصد اِضافہ ہوا ہے۔ ایک رِپورٹ کے مطابق 2019ء میں جموںوکشمیر میں جنگلات کا کل رقبہ 10.46 فیصد تھا جو 2020 میں بڑھ کر 39.66 فیصد ہو گیا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ حکومت کی 2019 ء کیلئے ایک رِپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جموںوکشمیر جنگل کے احاطہ میں348 مربع کلومیٹر کے اضافے کے ساتھ پہلی پانچ ریاستوں میں شامل ہو گیا ہے جس نے جنگل کے احاطہ میں سب سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا ہے۔ ڈائریکٹوریٹ آف اِکنامکس اینڈ سٹیٹسٹکس کے ذریعے لکڑی ، چارہ ، اور نان ٹمبر جنگلاتی مصنوعات جیسے فوائد کی مالیاتی قیمت تقریباً 3000 کروڑ روپے ہے جو جموںوکشمیر کی جی ڈی پی کے 2فیصد کے قریب ہے۔لیکن یہ سرسبز سونابے رحم ہاتھوں کی نذر ہو چکا ہے۔ کبھی تعمیراتی پروجیکٹوں کے نام پر اس کا بے دردی سے صفایا ہو رہا ہے، تو کبھی آگ سے متاثر ہو رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں، اس کا صفایا کرنے میں لوگوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ کشمیر میں گذشتہ سال 250آگ کی وارداتیں پیش آئیں اور دس برسوں میں ایسے 5000واقعات پیش آئے۔ سالانہ اوسطاً1273ہیکٹر اراضی آگ کی وجہ سے متاثر ہوتی ہے۔صرف آگ کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ کشمیر کے کئی ایک بڑے پروجیکٹوں کے نام پر جنگلات کی قربانی دے کر اس کا صفایا کیا جا رہا ہے۔کشمیر میں سانبہ امر گڑھ ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر کے دوران قریب 11ہزار درختوں کا صفایا کیا گیااور اب زوجیلا اور زیڈ موڑ سرنگوں کی تعمیر کے دوران بھی کم سے کم 10ہزار پیڑ پودوں کو کاٹنے کا عمل جاری ہے۔ یہی نہیں بلکہ کئی سال قبل بیکن حکام نے بنگس درنگیاری سڑک کی تعمیر کے دوران بھی بڑے پیمانے پر جنگلات کو نقصان پہنچا یا تھا۔جموں سرینگر شاہراہ کی تعمیر کے دوران بھی سینکڑوں درختوں کا صفایا ہوا ہے، اس طرح کوئی بھی نئے پروجیکٹ یہاں شروع کرنے سے قبل اس چیز کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔غور طلب بات یہ ہے کہ اس چیز کا قطعی طور پر کوئی خیال نہیں رکھا جاتا کہ جنگلات کے کٹائو سے ماحولیات پر کتنا اثر پڑسکتا ہے۔ حکام کی جانب سے غلط اور بے ڈھنکی منصوبہ بندی کا حال یہ ہے کہ گذشتہ 30برسوں سے سمگلروں نے بھی اس کو لوٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔محکمہ جنگلات یہ دلیل دے رہا ہے کہ سال20 2019-میں انہوں نے 25سمگلروں کو گرفتار کر کے ان کے قبضہ سے 16000مکعب فٹ لکڑی اور 50گاڑیاں ضبط کیں، لیکن جنگلات کے تحفظ کیلئے یہ کارروائی کافی نہیں ہے۔ شعبہ ارضیات کے ماہر اور اسلامک یونیورسٹی کے چانسلر پروفیسر شکیل رومشو نے کہا کہ جہاں جنگلات کا تحفظ کیا جانا تھا، وہاں تحفظ کے بجائے اس کا بے دردی کے ساتھ صفایا کیا گیا۔شکیل رومشو نے کہا کہ جتنے بھی بجلی پروجیکٹ بنے یا پھر سڑک منصوبے، ان کی تعمیر سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کہیں اس کا صفایہ نہ ہو ۔ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کا دن ایک ایسا دن ہے جس دن ہم لوگوں کو جنگلات کے تحفظ کے حوالے سے جانکاری دے سکتے ہیں۔ماہرین کہتے ہیں کہ سال2014کا سیلاب صرف جنگلات کے کٹائو کی وجہ سے آیا اور آج دیکھا جا رہا ہے کہ جب بھی کبھی سیلاب آتا ہے تو پانی کے ساتھ مٹی جمع ہو جاتی ہے کیونکہ پہلے جنگلات تھے اور بارشوں کا پانی جنگلات میں لگے درخت اور جھاڑیاں جذب کر لیتی تھیں اور پانی آہستہ آہستہ نیچے آتا تھا لیکن اب پانی مٹی کے ساتھ آتا ہے جس سے نقصان ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اربن پلاننگ میں اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے پرشور مقامات جیسے فیکٹریوں اور کارخانوں کے قریب زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں کیونکہ ایک دیودار کا درخت لوگوں کو سال بھر آکسیجن فراہم کرتا ہے اور اس کی قیمت بھی انمول ہے جو کوئی خرید نہیں سکتا۔محکمہ ڈزاسٹر منیجمنٹ کے ایک اعلیٰ افسر نے گلوبل وارمنگ کی اصل وجہ جنگلات کا کٹائو قرار دیاہے اور جموں وکشمیر میں ہر ایک فرد کو سال میں ایک سے تین درخت لگانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ درخت لگانا آسان ہے پھر اس کی حفاظت بھی ضروری ہے۔