ابن آدم کی تخلیق کے ساتھ ہی اس کے خلد سے نکالے جانے کے امکانات روشن نظر ارہے تھے جن کی شروعات ابلیس کے سجدہ انکار سے ہوئی تھی ۔ شجرہ ممنوع سے لیکر حضرت آدم کی دنیاوی زندگی تک کے تمام مسایل کی بنیاد شک و شبہات اور یقین کی ان منزلوں تک رسائی رکھتے ہیں جن کی آخری سر حد فطرت قدرت یا خدائی کے یہاں سربسجود ہونے کی کیفیت تک مقرر ہے۔ جہاں سے طاقت، قوت یا پاور کے تمام کنارے خودبخود خالق حقیقی کے سامنے زانو تہہ کئے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس عمل کے دوران صرف ایک باطنی قوتِ یقین ہی آدم کو سنبھالتی ہے اور سنبھالتی آئی ہے، جس کو اپنانے کی تلقین ہر مذاہب کے ہدایت ناموں اور انکے پیمبروں یا اوتاروں نے اپنےاپنے پیروکاروں کو کی ہے ۔
تاریخی اوراق گواہ ہیں اس بات کے کہ یقین ایک ایسی شٔے ہے، جس کا براہ راست یا راست مقابلہ وہم کے ساتھ رہتا ہے۔ اس وہم کے ساتھ جس کو کسی بھی علمی اصول ،عقلی منطق یا مذہبی قواعد نے اپنانے کے ہدایات نہ دیے ہیں بلکہ علم نفسیات نے تو اس سے خطرناک بیماری قرار دیا ہے اور بی ہورل ساینس کے مطالعے نے اس سے دور رہنے کی صلح جاری کی ہے ۔وہم کے اکثر حملے یقین پر ہوتے رہتے ہیں ۔
یقین کی بنیاد اس وقت پڑگی، جب آدم کی تخلیق خالق حقیقی نے اپنے پاک دست مبارکوں سے کی اور اسکی پشت پر ہاتھ پھیر کر پوری کاینات میں آبسنے والے افراد کے اندر حوصلہ پیوست کیا ۔یقین ایک ایسی چیز ہے جسکی بدولت حضرت انسان اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ہر قدم پر نئے جھنڈے گاڑنا چاہتا ہے اورنئی منزلیں طے کرتا جاتا ہے، چاند پر کمندیں ڈالتا ہوا نظر اتا ہے ، بلند آسمانوں کی سطحوں پر اڑان بھرتا آیا ہے ، زمینوں کے اندر سے اپنے لیے روزی روٹی کی بہترین سبیلیں کرتا رہتا ہے ، بہتے دریائوں کے اندر اپنے لیے تلاش رزق کی راہیں ہموار کرتا جاتا ہے۔ غرض یقین ان اوہامات ،خدشات ،افکار ، تجربات اور متزلزل خیالات کو سنبھالتا ہے، جن کی بدولت آدم مسایل کا مقابلہ کرکے ہر قدم آگے بڑھتا رہتا ہے اور اس طرح سے انسانی زندگی کے سفر کی یہ نائو سمندر میں رواں دوان ہے جو کبھی متعدد طوفانی موجوں کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کرتی ہے اور کبھی تھک ہار کر کف افسوس مل کر صرف سرد آہیں بھر بھر کر اپنی نگاہیں آسمان کی بلند سطحوں کی جانب لگا کر اپنے معبود سے یا تو اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتی ہیں یا پھر اپنی لکھی گئی قسمت کے بارے میں قدرت سے سوالی ہوتی ہے۔ جس کو غالب ؔنے یوں کہا تھا ۔؎
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغزی ہے پیراہن ہر پیکر تصویر کا
پیکر تصویر میں قابض ایک انسانی ڈھانچہ بہرصورت سوالی نظر آتا ہے گویا یہ نقش اپنے خالق کی ہر اس شوخی کو دیکھتا بھی چلا جاتاہے اور تمام تر اثرات نیز احساسات کو محسوس کرکے بھی اپنی زات کے حصار کو کاغذی پیراہن میں اپنی نازک اور کبھی نہ بننے والی اس تصویر کو سوچتا ہے، جس کا حلیہ محض مخصوص شخص کے مخصوص خیال کے مطابق قایم ہے اور جس کو توڑنا اس کے بس کی بات نہیں بلکہ حق تو یہی ہے کہ یہ محض ایک ڈھانچہ نہیں ہے ٹھیکری یا بجتی ہوئی مٹی کا یہ ڈھانچہ ایک زندہ دل ،دماغ ،سوچ، فکر،احساسات کا پیکر ہے جو ہر آن محسوسات،مشاہدات ، تجربات کی دنیا میں رہتا ہے، جہاں اسکی ہر سعی ،اس کا ہر عمل ،اس کا ہر تجربہ، اوہامات سے یقینات تک کے حالات سے نبرد ازما ہوتا رہتا ہے ،جس میں کبھی حالات اس پر حاوی ہوجاتے اور کبھی یہ شخص حالات پر نبرد ازما ہوجاتا ہے۔ اس طرح یہ سفر چلتا رہتا ہے اور نئے حوادث،نئے امکانات، نئے جنگ و جدل کے امکانات منظر عام پر آجاتے ہیں، یوں یقین سے اوہامات تک کا یہ سلسلہ اندیشہ ہائے دور دراز کی مانند آگے بڑھتا رہتا ہے اور آدم کی اولادیں روایتی ادوار یا جدید عہد میں تشکیل دئے گئے خود ساخت ، بنائے گئے از طرف دشمنان، قایم شدہ برائے تباہی و بربادی ،یا پھر نیچر کی جانب سے وارد کئےگئے حصار میں پھنس جاتا ہے ۔
لبوں کو چھو لیں ہوا کوئی بات ہو تو چلیں
حصار گرد میں راہ نجات ہو تو چلیں (حامدی کاشمیری )
تمام تر تجربات کا سنگلاخ راہوں سے گزر کر اصلی حقایق تک رسائی حاصل کرنا بذات خود ایک حسین سفر ہے ایسا سفر جس میں خود مسافر رہبر بھی ہوتا ہے رہنمابھی ہوتا ہے لیکن باوجود اس کے بھی یہ راہ کے مسافر کی طرح لٹ جاتا ہے، لوٹا جاتا ہے ، یا پھر اس پر ڈھاکہ ڈالا جاتا ہے ،ڈھاکہ ڈالنے کے اصول منفرد ہوتے ہیں ایسے کہ اس میں نہ ہی چور کی کوئی صورت نظر آتی ہے اور نہ ہی اس رہزن کا کوئی مادی وجود ہوتا ہے بلکہ یہ سب اوہام کی مختلف منزلوں سے گزر کر نہ جانے کب یقین کی زلفوں میں مقید ہوجاتی ہے مگر اکثر اوقات محض تجربات کا حلیہ پہن کر مشاہدے اوہام کی منزلوں سے تو باہر نکل ہی نہیں پاتے ہیں بلکہ اوہامات کی زندگی کے درمیان ہی مرجاتے ہیں اور اس طرح سے یقین کے سلسلے کی یہ کڑی بیچ راستے ہی عدم کی جانب سفر پر رواں ہوجاتی ہے مگر اس شخص کی زندگی بھی مسلسل عذاب بنتی جاتی ہے جو اپنے سینے کے اندر ان اوہامات کا مقبرہ سجالیتا ہے اور روز کیا ہر پل اس مقبر کی زیات کرکے اپنے وہوموں کی دنیا کو ترو تازہ رکھتا ہے۔ اس وہم کو پالنے کے قوانین کے الگ،مزاج مختلف،نشان منفرد اور اپنی اپنی بساط کے مطابق ہوتے ہیں ۔ کسی کامیاب انسان کو یہ وہم کہ ساری بستی کے لوگ مجھ سے جلتے ہیں یا مجھ سے حسد رکھتے ہیں ،محلے کا کامیاب طالب علم اس وہم کو پالتے پالتے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو برباد کرتا ہے کہ مجھ سا کوئی قابل طالب علم محلے کیاپورے گاوں میں نہیں ہوسکتا ، علاقے کا ایک کامیاب بزنس مین صرف اس وہم میں رہتا ہے کہ صرف میرا ہی بزنس پھل پھول سکتا ہے اور باقی عنقریب خاک پر ڈھیرا ڑالیں گے،خوبصورت نیز حسین لوگ اپنے حسن کو لیکر وہم و گماں کی کہانیاں رقم کرتے ہیں اور خود کو اس وہم کے حوالے کرتے ہیں کہ وہ زمانے کے یوسف ٹھہرے ہیں ،بہادر لوگ اپنی بہادری کے چرچوں کو لیکر وہم و گماں کے شکار ہوجاتے ہیں، تخلیق کار اپنے تخلیقی ہنر کو آزماتے ہوئے اندر ہی اندر وہم کی نئی تھیوریاں ایجاد کر رہےہوتے ہیں، علاقے میں موجود دولت مند لوگ اپنی دولت کو لیکر وہم کی ایسی دنیا قایم کربیٹھتے ہیں گوکہ ان کے سوا سماج میں باعزت زندگی گزارنے کا حق انکے سوا کسی اور کو نہیں ہے۔ غرض ہر شخص کہیںنہ کہیں اس وہم کی بیماری میں مبتلا ہے مگر کیا کیجئے اس بیماری کا جس کی کوئی دوا ہی دستیاب نہیں بقول شاعر۔؎
درد ہو تو دوا بھی ممکن
وہم کی کیا دوا کرے کوئی ( یگانہ چنگیزی )
آرزو لطف طلب عشق سراسر ناکام
مبتلا زندگی دل انہیں اوہام میں ہے ( دل شاہجان پوری )
مگر دنیا میں یہ اصول بھی اپنی جگہ مقرر ہیں کہ وہم اپنی جگہ آخر بناہی لیتا ہے اور اگر یوں کہیں کہ مستحکم و مظبوط جگہ بنا لیتا ہے نیز اپنی جگہ بناتے بناتے آدمی کو بیمار بھی بنالیتا ہے جس کی وجہ سے نئی بیماریاں جنم لیتیں اور بیمار شفاخانے کا رخ کرنے کے دوران مالی و جانی نقصان بھی کر بیٹھتا ہے لیکن بہر صورت یقین بھی کسی سے کم نہیں ہے ۔یقین رکھنا اور مکمل یقین رکھنا ہی دراصل انسانی آبادی کی بقا کی ضامن ہے مگر اس یقین تک سالم صورت میں پہچنا یا اس تک رسائی کوئی معمولی کام نہیں ہے بلکہ ایک انتہایی صبر آزما اور نہایت تکلیف دہ کام ہے نیز مشکل بھی اس یقین کو پالتے پالتے اور پاتے پاتے بندہ خدا کو خاردار منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے ،سمندروں کے سمندروں میں بعضے غوط زن بھی ہونا پڑتا ہے ،آگ کے شعلوں میں سے بھی گزنا پڑتا ہے ،دہکتے انگاروں پر اپنے جسم کو رکھنا پڑتا ہے ، کبھی کبھی نہ چاہتے ہوئے بھی بولنا ہی پڑتا ہے اور اکثر اوقات خاموشی اختیار کرنی پڑتی ہے ۔یہ یقین کا سلسلہ اس قدر طاقت ور نہ ہوتا تو آگ بجھ کر گلستان میں تبدیل نہ ہوتی اور ابراہیم ؑکا نام رہتی دنیا تک زندہ نہ رہتا ، سمندر کا پانی پختے راستے میں تبدیل نہ ہوتا نیز فرعون کو اپنے اندر ڈبو کر پھر جلا کر روز قیامت تک بطور عبرت نمونہ بنا کر نہ چھوڑتا ، زلیخا کا جھوٹ ثابت نہ ہوتا، صادق کی صداقت ظاہر نہ ہوتی ،مچھلی کے پیٹ میں حضرت یونسؑ زندہ نہ بچتے ، حضرت نوحؑ کی ناو ساحل سے نہ لگتی ، قریش کے لوگوں کو جمع کرکے پہاڈی پر اعلان نبوت نہ کیا جاتا۔ اس نوعیت کے بے شمار واقعات دنیا میں رونماں نہ ہوتے اگر یقین نہ ہوتا مگر سچائی یہ افضل ہے کہ اس یقین کو پائے تکمیل تک پہنچنے کی خاطر ہزار اوہامات سے گزرنا پڑتا ہے بلکہ لڑنا ہڑتا ہے۔ ان حالات میں دل بیچارہ بیمار نظر آتا ہے آدمی کا پورا جسم نحیف لگتا ہے، اس کی روح پر متزلزل ضرب لگنے شروع ہوجاتے ،انسانی جسم کے اندر اور باہر ایک عجیب کیفیت ملتی ہے اور یہ اندرونی جنگ اس شخص کی ظاہری دنیا کو بھی بہت حد تک متاثر کرتی ہے، یہاں تک کہ بے چین و بیقرار رکھتی ہے اور اسکی طبعیت کی حالت گویا یوں ہوتی ہے ۔
طبعیت ان دنوں اوہام کی ان منزلوں پر ہے
دل کم حوصلہ کاغذ کی گیلی کشتیوں پر ہے ( حمیرا رحمان )