قومی ہیکل اور شاندار ڈیوڑھی کے سامنے، ڈیوڑھی کی شان سے مطابقت رکھتے ہوئے پہناوے کے ساتھ ایک پُروقار شخص کی برف سی سفید داڑھی اور پُرکوشش آنکھوں نے اُس کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ بھرے ہوئے رخساروں پر آنکھوں کے نچلے کناروں سے آنسوئوں کی دو جھڑیاں، جو داڑھی کو تر کررہی تھیں، دیکھ کر اُس کو حیر ت سی ہوئی۔ اُس نے اخذ کرلیاکہ اس شخص کو شائد اُس کے بیٹوں نے گھر سے نکال باہر کردیا ہے ۔۔۔ از راہِ ہمدردی وہ اُس شخص کے قریب گیا۔۔۔ اُس نے واقعی دیکھا کہ اُس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں اور اُس کی تراشی ہوئی سفید داڑھی کسی حد تک بھیگ چکی ہے۔
’’بابا حوصلہ رکھئے۔۔۔ سب ٹھیک ہوجائیگا۔۔۔‘‘
’’بھائی۔۔ ٹھیک تو تب ہی ہوگا جب کچھ بچا ہو۔۔۔‘‘ بابا کی آواز میں تھرتھری اور دُکھ عیاں تھا۔
’’بچے ہیں۔۔۔ ابھی نادان ہیں۔۔۔آپ کی قدر و قیمت سمجھ جائینگے ۔۔ اپنا دل چھوٹا مت کیجئے۔۔۔‘‘
’’میں تو اپنے آپ کو سب سے بڑا کھلاڑی۔۔۔ سب سے بڑا اُستاد۔۔۔۔ سب سے بڑا ہنرمند سمجھتا رہا لیکن آج اُس شخص، جو اس ڈیوڑھی کے اندر مکان میں رہ رہا ہے، نے مجھے اپنی اوقات سے روشناس کرایا۔ تم نے وہ مکاں دیکھا۔۔۔! جو صرف میری کارکردگی کا نتیجہ ہے۔۔۔ جاکے تم دیکھ آئو وہ مکان۔۔۔ پھر بات کروں گا۔۔۔‘‘
بابا اُس سے ڈیوڑھی کے اندر مکان کو دیکھنے کی ضد کرتے ہوئے بولا۔
مکان دیکھنے کی غرض سے وہ ڈیوڑھی کی طرف بڑھا۔۔۔ دربان نے اُس کو اندر جانے سے روک دیا۔ ۔۔۔ اُس نے استدعا کی کہ بس ایک نظر مکان کو دیکھنا چاہتا ہے۔۔۔ دربان نے دروازہ اتنا ہی کھولا کہ وہ صرف اندر جھانک سکا۔۔۔۔ اندر مکان نہیں بلکہ محل تھا۔۔۔ وسیع و عریض احاطہ۔۔۔ صھن میں چھ سات جدید طرز کی موٹر گاڑیاں۔۔۔ رنگ برنگے ملبوسات پہنے ہوئے لاتعداد خدمتگار، جتنی خوبصورت اور شاندار اس محل نما مکان کی ڈیوڑھی تھی، اُس سے کئی گنا زیادہ محل اور اس کے ارد گرد کی سجاوٹ اور بناوٹ تھی۔
’’بابا یہ تو کسی بادشاہ کے محل سا ہے۔۔۔‘
’’یہ سب میرا کیا دھرا ہے۔۔۔ لیکن اُس نے مجھ سے دغا کی۔۔۔۔ مجھے دھوکا دیا۔۔۔ میرے ماتھے پر کالک پوت دی۔۔۔‘‘ بابا زارو قطار رو نے لگا۔
’’بابا۔۔۔ آپ اپنا دل چھوٹا مت کیجئے۔۔۔ آپ اگر یہ محل نما مکان بنا سکتے ہیں۔۔۔ تو آپ اور بہت کچھ کرسکتے ہیں۔۔۔ آپ حوصلہ رکھئے۔۔۔‘‘
’’بھائی ۔۔۔ تم کو نہیں معلوم کہ میں نے اُس شخص کو پیروں پر کھڑا ہوتے ہی اپنے سائیہ عاطفت میں لے لیا۔۔۔۔ بچپن سے ہی اُس کی تربیت کرنے میں دن رات ایک کردیئے۔۔۔ اپنے آپ کو سب سے آگے رکھنے کے طریقے وضع کر کے سکھائے۔۔۔ دنیا سے راغب ہونے کی ترغیب دی۔۔۔ دنیا کی دلکشیوں اور لذتوں سے روشناس کروایا۔۔۔۔ دنیا کے آرام اور آسائش کا احساس دلایا۔۔۔ یہی نہیں، ہاتھ پکڑ پکڑ کر بہت کچھ سکھا بھی دیا۔۔۔۔ ہر کام کو حسبِ منشا پائے تکمیل تک پہنچانے کے طریقے سمجھائے۔۔۔ اور یہ اُس کا پھل ہے کہ وہ آج ایک عالیشان رتبہ اور عمدہ زندگی حاصل کئے ہوئے ہے۔ یہ سب میں نے اُس کو اپنا گرویدہ بنانے کی خاطر کیا لیکن آج اُس نے مجھ پر کاری ضرب لگائی، جو میرے دل کو چیرگئی۔۔۔ میرے اعتبار کی دھجیاں اُڑا کے رکھ دیں۔۔۔ میری جانفشانی کا مذاق بناکے رکھ دیا۔۔۔ میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ مٹی کا بنا یہ پتلا اِس قدر شاطر اور اتنا دغا بازنکلے گا۔۔۔‘‘ بابا اپنے رخساروں سے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔
’’ بابا آپ نے تو اُس کی خاطر اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا۔۔۔ پھر کیا وجہ ہے کہ وہ اس عمرِ پیری میں آپ سے منہ موڑ رہا ہے۔۔۔ آپ کو اپنے سے الگ کررہا ہے۔۔۔‘‘
’’میں تمہیں کیسے بتائوں کہ اِس وقت میرے دل پر کیا بیت رہی ہے۔۔۔ جی کرتا ہے کہ اِس دنیا کو آگ لگادوں۔۔۔ دھوکے بازوں اور دغابازوں کی چمڑی ادھیڑ دوں۔۔۔ اُن کے ہر آرام کے ذریعے کو تحس نہس کردوں۔ مجھ میں ابھی اتنی طاقت اور ہمت ہے کہ میں اُس کو ملیا میٹ کرکے رکھ دوں۔۔۔ اُس نے میرا کیا دھرا کسی اور کے نام رقم کرکے میری اتنہائی بے عزتی کی۔۔۔ میں اُس کی تربیت میں خامیاں اور کمیاں محسوس کررہا ہوں۔۔۔‘‘ بابا نے کہا۔
’’تو کیا اُس نے یہ محل اور اپنا سب کچھ کسی اور کو بیچ دیا اور تم کو باہر نکال دیا‘‘۔
’’اگر وہ ایسا کرتا تو میں خوش ہوجاتا کہ میری تربیت رنگ لارہی ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اُس کو بہت فائدہ ہوتا۔۔۔ اور وہ دنیا کی لذتوں کا لطف اُٹھاتا۔۔۔ دنیا سے اُس کا لگائو بڑھ جاتا۔۔۔ لیکن اُس نے ایسا کچھ کیا جو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔۔۔ میرا دل پھٹا جارہا ہے۔۔۔۔‘‘ بابا پھر رونے لگا۔
بابا کا روتے روتے برا حال ہورہا تھا۔۔۔ چہرہ افسردہ ہوتے ہوئے بھی چمک رہا تھا۔۔۔ آنکھیں نم، لیکن پُرکشش تھیں۔۔۔ برف جیسی سفید داڑھی پوری طرح ترہوچکی تھی۔
’’بابا۔۔ ۔ آخر اُس نے ایسا کیا کردیا جو تم اُس سے اتنے ناراض اور نالاں ہو۔۔۔‘‘
’’کیسے بتائوں کہ اُس نے کیا کیا۔۔۔ اُس پر لعنت بھیجوں تو وہ لعنت کی بے عزتی ہوگی۔۔۔ تم کیا سمجھو۔۔۔‘‘ بابا نے ٹوٹے ہوئے حوصلے سے کہا۔
بابا نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف کھینچ لیا۔۔۔ ڈیوڑھی کے اوپری سِرے پر لگی ہوئی سنگ مرمر کی سِل کی طرف اشارہ کرتے ہوئیے بولا:
’’یہ ہے اُس کی حرکت۔۔۔‘‘
’’ہٰذا من فضل ربی۔۔۔ یہ تو اچھی بات ہے۔۔ یہ سب اللہ کا فضل ہے۔۔۔‘‘
’’یہی تو۔۔۔ کیا دھرا میرا۔۔۔ نام کسی اور کا۔۔۔ تمہیں نہیں معلوم میں کون ہوں۔۔۔؟‘‘
بابا نے سر جھکاتے ہوئے کہا
’’بابا۔۔۔ کون ہیں آپ۔۔۔؟‘‘
’’میں شیطان ہوں۔۔۔‘‘ بابا نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔۔۔
���
کینی ہائوس
کورٹ روڑ، سرینگر، کشمیر،موبائل نمبر؛9906633004