تاریخ شاہدِ عادل ہے کہ جنگ سے آج تک کسی کا بھلا نہیں ہوا۔جو فریق پہلے تباہ ہوتا ہے وہ ہارتا ہے اور جو بعد میں تباہ ہوتا وہ فاتح قرار پاتا ہے۔گو کہ تباہی دونوں فریقوں کامقدر بن جاتی ہے جو ایک بین حقیقت ہے۔ لیکن معلوم نہیں کہ کچھ لوگ اس حقیقت سے روگردانی کیوں کرتے ہیں اور جنگ کوہی ہر مسلے کا حل قرار دیتے ہیں ۔کئی سال قبل میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا۔
’’جنگ کے ذریعے کوئی مثبت نتیجہ حاصل کرنا سرے ممکن ہی نہیں ۔پہلی عالمی جنگ اور دوسری عالمی جنگ دونوں تاریخ کی عظیم ترین جنگیں تھیں‘مگر دونوںجنگیں صرف عالمی تباہی پر ختم ہوئیں۔ان جنگوں سے کسی بھی فریق کو کوئی فایدہ حاصل نہیں ہوا۔حقیقت یہ ہے کہ مسلح تصادم ہر حال میں بربادی کا ذریعہ ہے۔خواہ یہ مسلح تصادم ریاست کے ذریعے انجام پایاہو یا کسی غیر ریاستی تنظیم (NGO)کے ذریعے‘‘ہندوستان اور پاکستان کی موجودہ صورتِ حال کے پیش ِ نظر میں نے چندتاریخی کتب کا مطالعہ کیااور سرسری طور پر قدیم زمانے میں لڑی گئی کچھ جنگوں کے حوالے سے معلومات حاصل کیں ۔ دوسری عالمی جنگ(second world war)میںمورخین کے مطابق قریب قریب سات کروڑ لوگ مارے گئے جبکہ بیسویں صدی عیسوی روس میں جو اشتراکی انقلاب (Russian Revolution) رونما ہوا،اس میں مرنے والوں کی تعداد اسّی لاکھ سے بھی زیادہ تھی ۔ قابل ِ غور بات ہے کہ یہ جنگیں اُس زمانے میں لڑی گئیںجب اس طرح کے تباہ کُن ہتھیار موجود بھی نہیں تھے جن کی ایجاد موجودہ دور میں ہوئی ہے۔لہٰذا جنگ کی تمنا کرنے والے لوگ اور جنگی صورت ِ حال پیدا کرنے والے سیاست دان ہوش کے ناخن لیںاور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ آج ایک چھوٹی سے چھوٹی جنگ بھی ایسی تباہی مچا سکتی ہے کہ تاقیامِ قیامت اُس کی تلافی ممکن نہیں ہو سکتی۔
سیاسی مفاد ‘ خود غرضی اور ذہنی عنادسے بالاتر ہوکر دونوں ملک(ہندوستان اور پاکستان)بات چیت کے ذریعے مسائل کاحل تلاش کریں۔اورماضی میں لڑی گئی جنگوں سے عبرت پکڑلیں،کہیں ایسا نہ ہو کہ جذبات اور سیاسی مفاد کی رَو میں بہہ کراپنی تباہی کی وجہ خودہی بن جائیں ۔ایک سیاست دان یا قومی رہنما کی غلط بیانی اور مفاد پرستی پورے ملک اور قوم کوتہ و بالا کرسکتی ہے۔بقول ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے ؎
’’تاریخ ِ عالم پر ایک طائرانہ نظر ڈالیے توصاف نظر آے گا کہ بسا اوقات بعض افراد کے داخلی انتشار ورفساد کی وجہ سے عظیم خون ریزیاں ہوئیں اور امنِ عالم تہ و بالا ہوا۔ہلاکو اور چنگیز خاں اور ہٹلر اور مسو لینی ایسے لوگوں کی شخصیتوں کا ذرا دقتِ نظر سے مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوجائے گاکہ اِن کے جذبات واحساسات کے اختلال اور ذہنی وقلبی انتشار ہی کے نتیجے میں پورے عالم ارضی کا سکون وچین ختم ہوااوربے اندازہ قتل و غارت کا بازر گرم ہوا۔‘‘… (قرآن اور امن ِ عالم ‘صفحہ ۔8)
1947 میںجس وقت ہندوستان اور پاکستان دو علیحدہ ملک قرار پائے، کشمیر کا مسئلہ ان کے سامنے ایک بہت بڑی چنوتی یا چیلنج کے طور پر کھڑا ہوگیا۔دونوں ملکوں کے درمیان تصادم آرائی شروع ہوئی جس کا براہِ راست اثر کشمیر کی بے گناہ عوام پر پڑا اور نتیجتاً یہاں خون ریزی کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہواجوتاایں دم جاری ہے۔اس دوران یہاںجو تباہی اور بربادی ہوئی اس کی تلافی آج تک ممکن ہوئی اور نہ کبھی ممکن ہوسکتی ہے۔
لہٰذا مزید تباہی کسی کے بھی حق میں اور کسی بھی صورت میں ٹھیک نہیں ۔ دونوں ملکوں کو چاہیے کہ جنگی فضا قائم نہ ہونے دے اور جنگ کو فروغ دینے والے کسی بھی عنصر کو بے قابو نہ چھوڑے۔ علامہ اقبال نے اس زمانے میں کہا تھا جب یہ دونوں ملک ایک تھے۔ ؎
وطن کی فکر کر ناداں ‘مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کی مشورے ہیں آسمانوں میں
گویا کہ ان دو ملکوں کی تباہی میں کوئی خارجی قوت کار فرماتھی جس کو اقبال نے محسوس کیا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ وہ خارجی قوت اب بھی کسی نہ کسی صورت ان ملکوں کوتہہ و بالا کرنے پر نہ صرف آمادہ ہے بلکہ متحرک اور کمربستہ بھی ہے۔ دونوں ملکوں کے لئے دانشمندی اسی میں ہے کہ یہ آپسی تعلقات کو بہتر بنائیں اور سب سے بڑے چیلنج یعنی ’’مسئلہ کشمیر‘‘کو حل کریں۔اگر ہندوپاک باہمی شیر و شکر ہوجاتے ہیںتو دونوں جانب پونے دو ارب کے قریب لوگ چین و سکون کی سانس لے سکتے ہیں اور یہ خطہ ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے لیکن اگر کشیدگی جاری رہی تو تباہی طے ہے کیونکہ دونوں ممالک باہم پیوسطہ ہیں اور ان کا نفع و نقصان ایک دوسرے سے مربوط ہے ۔امید ہے کہ ارباب بست و کشاد دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسانی بقاء کیلئے باہمی اختلافات بھلا کر اعتماد کی ایسی فضاء قائم کریں گے جہاں بداعتمادی کی کوئی جگہ نہ ہو اور جہاں سارے مسائل افہام و تفہیم سے ایسے حل ہوں کہ فریقین بھی مطمئن ہوں اور متاثریں بھی خوش ہوں۔
رابطہ۔ سیر جاگیر سوپور،کشمیر
فون نمبر۔8825090545