ملک میں آج جو حالات پیش آرہے ہیں‘ جس طرح سے ایک طبقہ دوسرے طبقہ پر جارحیت کے ذریعہ خوف مسلط کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کا مقابلہ کیا جانا چاہئے۔ اخباری بیانات‘ سوشیل میڈیا پر ویڈیو کلیپنگ شیئر کرنے سے غیر ضروری مشوروں سے نوازنے سے کچھ ہونے والا نہیں۔ جہاں جہاں یہ واقعات پیش آرہے ہیں۔ وہاں کوئی مدد کے لئے نہیں آیا نہ مستقبل میں اس کی امید ہے۔ لوگوں کے لئے تو یہ ویڈیو گرافی کا بہترین موقع ہے۔ جتنے لوگ اپنے کیمروں سے ہجومی تشدد کے واقعات کو شوٹ کرتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک بھی اگر مظلوم کی مدد کے لئے آگے بڑھیں تو یقین مانئے حملہ آور فرار ہوجائیںگے کیوں کہ بزدل طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں یہ گروپ کی شکل میں حملہ آور ہوتے ہیں۔ اکیلے ہوں تو بھیگی بلی بن کر نظریں نیچی کرکے گزر جائیںگے۔ چاہے اس علاقہ میں ان کی اکثریت ہی کیوں نہ ہو۔ جہاں حملے ہوئے وہاں مظلومین نے اپنی اور اپنے ارکان خاندان کی جان بچانے کے لئے منت اور سماجت کی مگر یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل مومن کے نہیں کہ نرم ہوں؟ یہ پتھر دل ہوگئے ہیں۔ جتنا گڑ گڑائوگے وہ اتنے ہی اپنے آپ کو سورما سمجھ کر ظلم ڈھاتے ہیں۔ آپ چاہے ان کے کہنے پر نعرے لگائو یا نہ لگائو یہ چھوڑنے والے نہیں ہیں۔ کیوں کہ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ وہ ایسا کرکے اپنی قوم میں ہیرو بن جائیںگے۔ سوشیل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے پر دبائو کے نتیجے میں گرفتار ہو بھی جائیں تو قانون کے محافظین دراصل انہیں تحفظ فراہم کرتے ہیں جیل میں ان کے ساتھ وی آئی پی جیسا سلوک یا جاتا ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ عدالتوں میں بھی فیصلے ان ہی کے حق میں ہوتے ہیں۔
ہمارے لئے یہ حالات نئے نہیں ہیں۔ جب ہم دنیا کی سب سے بہترین قوم میں پیدا کئے گئے تب سے ساری اقوام ہمارے خلاف رہی ہیں۔ ہم اکثر ماضی میں کھوئے رہتے ہیں اپنے شاندار ماضی کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ مگر اپنے اسلاف کے کردار کو یاد نہیں کرتے جنہوں نے آج کے مقابلے اس سے کہیں زیادہ مظالم سہے۔ انہوں نے کبھی دشمن کے آگے ہاتھ نہیں جوڑے۔ منت سماجت نہیں کی، کیوں کہ ان کا یہ ایمان تھا کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ ہے۔ آج اس ایمان کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ موت لکھی ہے تو ٹل نہیں سکتی۔ حیات ہے تو کوئی مار نہیں سکتا۔ اس لئے مقابلہ کیا جائے۔ حملہ آور تعداد میں زیادہ بھی ہوں‘ اور جب اپنے بچنے کی امید کم ہو تو کیوں نہ مرتے مرتے اتنا مقابلہ کیا جائے کہ حملہ آور زندگی بھر اسے یاد رکھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری ہمت سے اس کی ہمت جواب دے دے۔ جہاں مقابلہ ہوا وہاں دشمن یقینا کمزور ہوگا کیوں کہ ہماری ایمان کی طاقت اس پر غالب رہے گی۔ اگر مقابلہ کے بجائے منت و سماجت کی جائے، عاجزی کی جائے، گڑگڑایا جائے تو جو زندگی بچ جائے گی اس میں ہمیشہ ہم اپنے آپ سے آنکھیں چراتے رہیںگے۔
آج ہم کمزور ہیں اس لئے نہیں کہ تعداد میں کم ہیں، اس لئے کہ ہماری توانائیاں آپس میں ایک دوسرے کو مٹانے، نیچا دکھانے میں ضائع ہورہی ہیں۔ ہم جسمانی طور پر قوی نہیں ہیں‘ رات بھر جاگتے ہیں‘ دیر تک سوتے ہیں اور سوشیل میڈیا پر وقت ضائع کرتے ہیں۔اگر ہم جسمانی طور پر مضبوط ہوں‘ چستی پھرتی ہو‘ ایک چار پر بھاری ہو تو قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں ہم سب کی جان ہے‘ ہم کم تعداد کے باوجود اپنی شناخت اور وقار کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوںگے۔ آپ کو اپنے آپ کو صحت مند بنانے پر کوئی پابندی نہیں۔۔۔
اللہ تعالیٰ کو ایک عام مسلمان کے مقابلہ میں قوی مسلمان زیادہ پسند ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عہد زریں کے ممتاز ترین اور ناقابل تسخیر جری و بہادر تھے۔ بہترین شہسوار تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا یہی معاملہ تھا۔ افسوس کہ آج ہم میں سے کچھ صحت مند ضرور نظر ا ٓتے ہیں مگر یہ اپنی طاقت اور اثرات کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ زمینات پر قبضے، جبری وصول، کمزوروں پر ظلم کیلئے جانے جاتے ہیں۔ آج قوم کے ہر بچہ کو صحت مند بنانے کی ضرورت ہے۔ ہر بچے کو پھرتیلا بننا ہوگا۔ خود حفاظتی فنون میں مہارت حاصل کرنی ہوگی جس سے وہ ظالموں کی جارحیت کا مقابلہ کرسکیں۔ ہر مدرسہ، ہر عصری تعلیم کے اسکول میں اپنی حفاظت کے طریقہ قانون کے دائرہ میں رہ کر انہیں سکھانے ہوںگے۔ آپ اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر، آئی اے ایس آئی پی ایس ضرور بنائیں‘ ساتھ ہی انہیں ’’مرد‘‘ بھی بنائیں جو جارحیت پسند نامردوں کا مقابلہ کرسکے۔اسپورٹس کے نام پر ہم کرکٹ کے شیدائی ہیں‘ کچھ فٹ بال بھی کھیلتے ہیں۔ہماری نئی نسل کو مردانہ کھیلوں کی عادت ڈالنی چاہئے۔ ان کی سانس بنے گی تو ان کی ہمت بھی بندھی رہے گی۔ ہاتھ پائوں مضبوط ہوںگے تو مقابلہ کرنے کا حوصلہ بھی پیدا ہوگا۔
موجودہ حالات میں قوم کو ’’مرد‘‘ بنانے کی ذمہ داری والدین‘ اساتذہ‘ علماء اور قائدین کی ہے وہ خوف نکالیں، غزت کے ساتھ جینے کی تلقین کریں۔ قوم زندہ رہے گی تو ان کی قیادت بھی زندہ رہے گی۔ اس کے لئے اپنے اپنے اختلافات کی گھٹری کو دفن کرکے ایک ہونے کی ضرورت ہے۔۔۔ ایسا ناممکن تو نہیں۔۔۔موب لنچنگ کے جو دل آزار واقعات ہورہے ہیں‘ جب ان کا مقابلہ کیا جائے گا کچھ حملہ آوروں کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا تو اس کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی آنے والے حالات کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ مرد آدمی عموماً عورتوں اور بچوں کی وجہ سے کمزور ہوجاتا ہے۔ انہیں بچانے کے لئے خود قربان ہوجاتا ہے۔ اس لئے جب اس کے ساتھ اس کے ارکان خاندان بھی یہ طے کرکے کہ زندگی اور موت‘ عزت و ذلت صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے‘ غنڈوں کا مقابلہ کریںگے تو انشاء اللہ ان کا پلڑا بھاری رہے گا۔ کیوں کہ ظلم کرنے والے کمزور ہی ہوتے ہیں ،طاقتور تو مظلوم کی حفاظت کرتا ہے۔ ان کمزوروں اور بزدلوں سے کیسا ڈر اپنے آپ کو موبائل کے قید سے باہر نکالو۔ آج سے ہی نماز کی پابندیوں کے ساتھ باقاعدہ ہلکی پھلکی ہی سہی ورزش کا اہتمام کرو! انشاء اللہ‘ اللہ کی مدد شامل حال رہے گی اور ایک بار پھر ہم غالب رہیںگے۔انشاء اللہ۔۔۔
رابطہ: ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔
فون:9395381226