ہم کدھر جارہے ہیں؟

بے شک آج جب ہم اپنے معاشرے کی کافی حد تک بگڑی ہوئی صورت حال پر نظر ڈالتے ہیں تو صورت حال افسوس ناک دکھائی دیتی ہے ،خاص طور ہماری نوجوان نسل جس تیزی کے ساتھ بے راہ روی پر گامزن ہے ،وہ دن بہ دن تشویشانک صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔۔کسی بھی قوم یا معاشرے کی ترقی و تنزل میں اس کی نوجوان نسل کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے کیونکہ نوجوان نسل ہی قوم و معاشرہ کا قیمتی سرمایہ ہوتی ہے،مگر جب یہی نوجوان نسل بگڑ کر ذہنی و فکری غلامی میں مُبتلا ہو تووہ قوم یا معاشرہ ہر گز تباہی سے بچ نہیں سکتا ہے۔ہماری کشمیری نوجوان نسل نے جن بُرائیوں کو اپنا لیا ہے،اُن سے معاشرے میں آوارگی اور بے راہ روی عام ہوتی جارہی ہے۔،ہمارے معاشرتی نظام میں اس حد تک بگاڑ پیدا ہوچکا ہے کہ ہر طرف سے ہرسطح پر اور ہر معاملے میں انسانی قدروں کی پامالی ہورہی ہے۔پورا معاشرہ اخلاقی تنزل اور انحطاط کا طرف بڑھ رہا ہے۔اخلاق سوز رجحانات دن بہ دن فروغ پارہے ہیں اور شرافت و حیا داری کو خیر باد کرکے اخلاقی قدروں کو مسمار کیا جارہا ہے۔

 

ہر طرف تہذیبی جاحیت اور مغربی ثقافت کا بول بالا دکھائی دے رہا ہے اور نوجوان نسل اخلاقی تنزل کے پُر فریب راستوں پر روں دواں ہے۔بغور جائزہ لینے پر صاف دکھائی دیتا ہے کہ ہماری معاشرتی زندگی میں اس کے اثرات اب نمایاں ہورہے ہیں ۔گھروں ،محلوں ،بازاروں ،دفتروں ،کارخانوں ،تعلیمی اداروں ،تفریح گاہوں یہاں تک کہ عبادت گاہوں کے آس پاس بھی بے رہ روی ،آوارگی ،حیا سوزی اور اخلاق باختگی کا چلن جاری ہے اور تعجب کا مقام ہے کہ نام نہاد ترقی کے نام پر عام لوگوں میں خود غرضی ،بے ایمانی اور چھینا جھپٹی نے بھی جو اثرات مرتب کرڈالے ہیں ،اُس کے نتیجے میں اُن میں بے حسی اور بے عملی اس حد تک رَچ بس گئی ہے کہ وہ کھلے عام گناہ کا ارتکاب دیکھ کر بھی نابینا بن جاتے ہیں۔جس کی سب سے بڑی وجہ شائد وہی دولت ہے جو یہاں کے لوگوں کو آسانی سے حاصل ہوجاتی ہے۔حد سے زیادہ منافع خوری ،سرکاری رقومات میں لوٹ کھسوٹ ،رشوت ستانی ،ہیرا پھیری ،بد دیانتی ،بے ایمانی ،جھوٹ ،منشیات کے دھندے ،نقلی ادویات کی فروخت سے جو بہت زیادہ پیسہ حاصل کیا جارہا ہے وہ پیسہ حرام کاموں پر ہی صرَف ہورہا ہے۔ یہ قدرتی امر ہے کہ جس معاشرے میں بے ایمانی عام ہو،اُس میں بُرائیاں خود بخود جنم لیتی ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ جس معاشرے میں انصاف اور ایمان کا بنیادی جذبہ مفقود ہوجاتا ہے، اُس معاشرے میں فقط خرابیوں کو تقویت ملتی ہے۔اہلِ وادی اِنہی بُرائیوں اور خرابیوں کے باعث بہت تیزی کے ساتھ تہذیبی اور ثقافتی جارحیت کے شکنجے میں جارہی ہے۔ ظاہر ہے کہ معاشرے کا عروج و زوال اُس کے اجتماعی افعال کا مرہونِ منت ہوتا ہے اورعروج اُنہی کو نصیب ہوتا ہے جن کی فکرمیں بلندی ہوتی ہے ۔کشمیری قوم میں فکر کی بلندی ناپید ہورہی ہے جس کی ایک سبب رہنمائی کا فقدان بھی ہے۔رہنمائی کے فقدان سے جہاں کشمیریوں کی ملی حمیت مجروح ہوچکی ہے، وہیں معاشرے کے زیادہ تر لوگ خوف اور تساہل پسندی کے ساتھ ساتھ لذت پسندی کی خصلت ِ بَد میں مبتلا ہوئے ہیں،جس کے نتیجے میں وہ کسی بھی بُرائی یا خرابی کے خلاف آواز بلند کرنے سے بھی قاصر ہوچکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے یہاں چاروں سمت سے بے ہودہ کلچر اور لچر ثقافت کی یلغار ہے جو ہمارے معاشرے کو تباہی اور بربادی کی جانب دھکیل رہا ہے۔ایسا کیوں ہورہا ہے؟اس کو کسی کی کیا پڑی ہے کیونکہ لوگ لالچ میں گرفتا رہیںاور نام نہاد ترقی کے لئے سب کچھ گوارا کرلیتے ہیں،بُرائیوں کو دیکھ کر اُنہیں بُرا نہیں مانتے ہیں،بُرائیوں کے خلاف کوئی آواز نہیں اُٹھاتے ہیں اور نہ ہی اس کی مذمت کرتے ہیںاور اس طرح معاشرے میں پھیلی ہوئی تمام بُرائیوں کو فروغ دینے بلواسطہ یا بلا واسطہ اپنا بھر پور تعاون دے رہے ہیں اور اس بات بالکل غافل ہیں کہ ہم کدھر جارہے ہیں؟یاد رہے!انسان کا بے فکر ہونا کسی بھی صورت میں اچھی بات نہیںاورجوانسان مستقبل کی فکر نہیں کرتا ،وہ انسان نہیں حیوان ہے۔