ہم مسلمان کیا کریں؟

 دورِ  حاضر کا المیہ یہ بھی ہے کہ ایک طرف ہم میں سے بعض کلمہ خوان غرور وتکبر، احساسِ برتری، تنگ نظری ،بدگوئی کے سبب مسلم معاشرے کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں، ودسری طرف اسلام کی روٹیاں توڑنے والے بھی اسلامی مزاج و کردار سے دور بہت دور ہیں اگرچہ زبانی زبانی اسلام کی بقاء و فروغ کی باتیں کرتے ہیں مگر غور وفکرکے ساتھ ان کے کاموں پر نگاہ ڈالئے تو محسوس ہوگا کہ یہ اپنے دین وایمان کی تجہیز و تکفین کرتے رہتے ہیں۔ اسلام سکھاتا ہے کہ مسلم وہ ہے جو دوسروں کے محاسن پر نظر رکھے، قدر شناس ہو اور اکرامِ مسلم کاکرے، خود کو اوروں سے کم تر اور دوسروں کو اپنے سے برتر سمجھے مگر کیا کیا جائے یہاں حال یہ ہے کہ حضرات اپنے وجود سے باہر ہر کس وناکس کم تر جان کراس شعر کے مصداق بنتے ہیں   ؎
ہر کوئی کہتا ہے میں ہوں دوسرا کوئی نہیں
اس صدی کا اس سے بڑھ کر حادثہ کوئی نہیں
حدیث شریف میں آیا ہے کہ سبھی مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، ایک بھائی کا اخلاق و کردار جب تک دوسرے بھائی کے ساتھ ٹھیک نہیں ہوگا، وہ بھائی کہلانے کا کسی طرح بھی مستحق نہیں ہوگا۔ اسلام نے ایک دوسرے کے ساتھ حسنِ اخلاق کرنے کا درس دیا ہے تاکہ دوسرا کمزور بھائی بھی زندگی امن و سکون  اور عزت ووقارکے ساتھ گزار سکے۔ آپسی بھائی چارہ، اخوت و محبت، اتحاد و اتفاق یہ وہ اوصاف ہیں جن سے ہم دوسروں کادل جیت سکتے ہیں مگر آج ہم خود کو اوروں سے بالا تر سمجھنے کے سبب بد حال بنے ہوئے ہیں، ہماری اخلاقی طاقت بکھر چکی ہے، ہمارا تشخص تحلیل ہوچکا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی ہمیں دبانے میں لگاہے، یہاں تک کہ ہمارے اپنے بھی غیروں کے ساتھ مل کر ہمارے لئے ہی خنجر بنے  ہیں ،ہماری کی شہ رگ کاٹنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ہیں۔ ہم اغیار کا کیا شکوہ کریں ہم تو اپنوں کی کرم فرمائیوں سے ہی خوف زدہ ہیں اوروہ وحشت و درندگی کے وہ کارنامے انجام دے رہے ہیں کہ جن سے اسلامی اخوت کا چمن اجڑرہا ہے۔ اس لئے اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ بحیثیت ملت اسلامیہ ہم کب کے مر گئے ہیں، اب صرف ہماری اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد یں ہیں ،انانیت کے بت ہیں، اتحاد و اتفاق کے درس بے معنی باتیں ہیں، ہماری ا سلامی قدریں اتنی ڈھیلی پڑ چکی ہیں کہ مساجد، نمازیں ،حج و عمرہ کی ادائیگیوں کے باوجود بھی ہماری صفیں نہیں ملتیں، ہمارے لیے جو عبادات اتحاد و اتفاق اور بھائی چارے کا درس تھیں، وہ بھی اب قصہ ٔپارینہ بن گئی ہیں۔اسلام نے تو درس دیا تھا کہ گر افریقہ کے صحرا میں کسی مسلمان کے تلوے میں کانٹا چبھے تو اس کی کسک ایشیا میں مسلمان اپنے دلوں میں محسوس کریں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ پوری دنیا آج مسلمانوں کے لئے مقتل بنی ہوئی ہے، خون مسلم کی ارزانی پر آسماں بھی ماتم کناں ہے۔ عراق لٹ گیا، لیبیا تباہ ہو گیا، شام کی سر زمین مسلم لاشوں سے بوجھل ہے، کہاں کہاں ندائے مظلوم مین بلند نہیں ہوتیں؟ اپنا وطن کشمیر کہاں کہاں لہو لہاں نہیں ؟ کہاں بیٹیوں کی چیخیں بلند نہیں ہوتیں؟ یتیم اور بیوائیں کہاں نہیں سسکتیں؟بھوک پیاس کی شدت سے کتنے بچے بوڑھے پیر و جوان ایڑیاں رگڑ رگڑ نہیں مرتے ؟ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھئے، اپنے ضمیر پر زور ڈالئے، اپنی غیرت سے سوال کیجئے، اپنے ایمان سے سرگوشی کیجئے، مسلمانی کا واسطہ دے کر اپنے آپ سے پوچھئے، قرآن کریم سنن نبوی علیہ السلام کو پڑھ کر اور اصحاب النبی رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی داستان عزیمت پڑھ کر سوچئے کہ اپنے بھائیوں کی لاچاری و بے کسی کودیکھ کر یا سن کر کر کتنی بار آپ کی آنکھیں آنسو ؤں سے ڈبڈبائیں؟ کتنی بار آپ کی غیرت ایمانی نے آپ کو پکارا کہ اپنے عیش گاہوں سے ذراسانکل کر اپنی مظلوم ملت کی مدد کے لیے کمربستہ ہو جائیں؟ایک سال کی مدت میں آپ نے کتنا وقت اپنی ملت اسلامیہ کے سسکتے بلکتے لوگوں کی خبرگیری کے لیے نکالا؟ ہفتوں مہینوں کا حساب کیجیے؟ گزرے لمحات کا گوشوارہ دیکھئے کہاں آپ نے کسی ساتھ محض اللہ کے لئے ہمدردی کا سلوک کیا ؟ ان سوالات کا جواب پانے والے زیادہ تر ہم مسلمان ایسے ہوں گے جن کی پوری زندگی میںماہ وسال چھوڑیئے چندگھنٹے بھی ایسے نہ ہوں گے جوب ہم نےاپنے دینی بھائیوں کی خبر گیری میں صرف کئے ہوں۔کیا یہ شرم و عار کی بات نہیں ہے؟ توکیا ہم بھول گئے ہیں اپنے نبی کے فرمان کو کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،؟کیا بھائی ایسے ہوتے ہیں؟ کیا بھائی بھائی کی خبر گیری، اس کی مدد ،اس کے لیے کچھ نہ کرنے کے باوجود بھی بھائی رہتے ہیں؟ ہرگز بھی نہیں، تو سوچئے ہم کون ہیں اور ہم کہاں ہیں۔ بھائی چارے کے حوالے سےہمارا ماضی جتنا تابناک ہے، اُسی قدر ہمارا حال بے رُخی اور بے فکری کا ہے،۔ایسے میں ہمارا ملّی مستقبل خدانخواستہ کتنا تاریک ہوگا، اسے بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ۔
آج جس خود غرضی اور بے فکری کے ساتھ ہماری زندگی گزر رہی ہے، کیا قرآن و حدیث ہم سے ایسی بے نیاز زندگی گذارنے کا کہیں مطالبہ کر تا ہے؟ کیا ہم اس طرح کی زندگی گزار کر اپنے رب کے یہاں سرخ رُو ہوں گے؟ آج ہماری زندگی صرف اپنے مفادات اور منافع تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ہمارا مسلمان پڑوسی بھوکوں مر رہا ہو، ہمارے محلے میں یتیم بچے دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں، بیوائیں سسک سسک کر دُکھ بھرے دن کاٹ رہے ہیں، ہمارے محلے میں کوئی مریض پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے موت کے انتظار میں ہے، مفلس و قلاش اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر نے کی سبیل نہیں نکال پاتا، غریب بیواؤں کی جوان بیٹیوں کی جوانیاں مرجھا رہی ہیں، قوم کے ہونہار نوجوان جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے اپنے خواب بکھرتے دیکھ رہے ہیں، کمزور مسلمانوں کے خون سے کھلے عام ہولیاں کھیلی جا رہی ہیں، ماؤں اور بہنوں کی عزت تار تار ہو رہی ہیں، یہ ہمارے گردو پیش ہمارے بستیاں اجڑ رہی ہیں لیکن پھر بھی ہم غفلت اور شا نِ بے نیازی کے خول سے باہر نکل آنے کو تیار نہیں ۔ افسوس اس سب کے باوصف ہم کو یہ دعویٰ ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ اے کاش !ہم کو کچھ بھی پیغام اسلام کا پاس و لحاظ ہوتا۔ اے کاش! ہم نے رحماء بینہم( مسلمان آپس میں رحیم و شفیق) کی تعلیم اپنے سینے سے لگا رکھی ہوتی تو  بات کچھ اور ہوتی ۔ پھر ہماری تباہی و بربادی کا یوں سرعام تماشہ نہ ہوتا۔
 ان مایوس کن حاات میں بھی ہمیں چاہیے کہ اللہ پر ایمان اور بھروسہ رکھتے ہوئے ایک دردمند دل کے ساتھ انتہائی پیار محبت اور خلوص سے اسلامی تعلیماتِ اخوت کا نقشہ اپنے معاشرہ میں پیش کریں۔اسلامی ہمدردی کے نمونے پیش کریں، محتاجوں، لاچار مریضوں، غریب بیواؤں ، یتیم بچوں اور نادار لوگوںکی امداد محض اللہ تعالیٰ کے لئے کریں ، رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی دین دُکھیوں کے لئے محبت و مودت کو دل کی دھڑکن اور روح کی تسکین کا سامان بنا لیں،اصحاب نبویؓ کی قربانیوں کو اپنی روحوں کی غذا بنا لیں، قرآن وحدیث کو آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کا قرار کر دکھائیں اور دوسروں کے لیے دل میں محبت کے وہی جذبات رکھیں جو اپنوں کے لئے رکھتے ہیں، اختلافی تبصروں اور لاینحل مسائل سے دامن بچا کر صرف اللہ تعالی و رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی آبیاری کریں ۔ یقین کریں جب یہ سب ہم سے ہوا تودنیا ہمارے قدم چومے گی، بس ہم دل و جان سے کچھ اچھا کرنےکی ٹھان لیں۔ ہم سبیادرکھیں کہ ملت کے عروج اور عزت کی بحالی کے لیے ہم مسلمانوں کی دین سے قلبی و عملی وابستگی ضروری ہےاور روحانی تعلق لازمی ہے۔ ہمارا والہانہ محبت و احترام کے ساتھ یہ تصور رکھنا عین اسلام ہے کہ تمام مسلمان ایک اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں، قرآن کو واحدکتاب ہدایت مانتے ہیں، کعبہ کی طرف رُخ کر کے اللہ کی عبادت بجا لاتے ہیں ، دنیا کے مسلمانوں کو اپنا بھائی سمجھ کر اپنے آپ کو امت کا ایک حصہ گردانتے ہیں۔ اسلام دنیا کے تمام انسانوں کو ایک گروہ قرار دے کر اُن کو اللہ کی بندگی اور اطاعت کی طرف دعوت دیتا ہہے ۔اس لئے ا ہل ِاسلام والوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اخوت اسلامی کو اپنانے کے بجائے کسی ایسے شخص کو جو ایک اللہ اور آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتاہو  اورقرآن کو واحد رہنما کتاب تسلیم کرتا ہو، صحابہ کبار ؓ کی عزت وتکریم جزو ایمان مانتا ہو، اُسے کسی فروعی اختلاف کی بنیاد پر اسلام سے خارج قرار دیں، اُس کی گردن اُڑانے پر تُل جائیں، اس پر ہاتھ اُٹھائیں، اس کی تضلیل و تحقیر کریں، اس کی املاک کو نقصان پہنچائیں ۔جو بھی فرد یا گروہ اس قسم کی تبلیغ یا کام کرتا ہو، وہ سب سے بڑا جاہل اور اسلام کا دشمن ہی ہوسکتا ہے ۔اسلام اصلاح کے نام پر فساد پھیلانے کی کسی کو اجازت نہیں دیتا ہے۔ موجودہ نازک حالات میں مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق اور ا خوت ومحبت سے رہنا ہی سب سے بڑی دعوت اسلامی کا کام ہے۔ 