یہ اُن دِنوں کی بات ہے جبکہ میں جوان تھااورنمازفجرسے فارغ ہوتے ہی قومی شاہراہ کے ساتھ ساتھ سیرسپاٹے کیلئے نِکل جایاکرتاتھا۔پڑھنے کی حدتک تومیں نمازپڑھ ضرورلیتاتھا مگرنمازقائم کرنے سے کوسُوں دُورتھا۔گھرکے بڑے کبھی کبھی ٹوکاٹوکی کیاکرتے تھے ۔کہتے میاں نمازپڑھنابڑی بات نہیں قائم کرنا بڑی بات ہے ۔سیانوں کی بات اپنی جگہ مگرمیرے کانوں پراُن دِنوں جوں تک نہیں رینگاکرتی تھی۔لوگوں کی نظروں میں اگرچہ میں اچھاخاصانمازی تھامگرنمازکے باوجودمیری شخصیت کا ٹیڑھا پن وہی کاوہی تھا ۔نمازکے سرُور کے بجائے غُرور کاایک ہلکاسانشہ ہمیشہ مُجھ پرچھایارہتاتھا ۔اُن دِنوں اگرکوئی مجھ سے مصافحہ کیلئے ہاتھ آگے بڑھاتا تھاتومیں پوراہاتھ ملانے کے بجائے محض چاراُنگلیاں ملاکراُسے دست پوشی کااعزازبخش کررُخصت کردیاکرتاتھا۔سچ پوچھوتواِسکی وجہ یہ تھی کہ مجھے اپنے سِواکوئی اورنمازی نظرآتاہی نہیں تھا ۔میری نظروں میں تومیں ہی میں تھا۔ میری اِس روش کو دیکھ کربڑے اکثرکہابھی کرتے تھے ’’میاں اِس ’میں‘ کونکالو۔یہ توبڑی خطرناک بلا ہے۔یہ بڑ ُوں بڑوں کودھول چٹاچکی ہے۔اِس کاانجام جانناچاہتے ہوتو قصائی کے سامنے بندھے کسی بے بس بکرے سے پُوچھو‘‘۔
اُن دِنوں صبح کی سیرکے دوران بہت سے لوگوں سے ملاقات رہتی تھی ۔مولانا یاراحمد بھی ایسے ملاقاتیوں میں سے ایک تھے۔ اگرچہ وہ بھی روزصبح کے وقت میری طرح نکلاکرتے تھے مگرمیرے اورانکے نکلنے میں زمین وآسمان کافرق تھا میرا مقصد جسمانی تو ان کا رُوحانی ہواکرتاتھا۔وہ لوگوں کے بچّوں کوگھرگھرعربی پڑھاکر اصلاح، فلاح اور دائمی نجات کے راستے ہموار کررہے تھے مگرمیرامقصدتومحض اپنے جسم کی تندرستی اورچُستی برقراررکھنے تک ہی محدودتھا۔میں اُن دِنوں مولاناصاحب کوکسی خاص توجہ کامستحق نہیں سمجھتاتھا ۔یہی وجہ تھی کہ کبھی ہاتھ توکبھی سِرکے اشارے سے انکے سلام کاجواب دیکرآگے بڑھ جاتاتھا ۔اپنی جدیدتہذیب وتمدن کی روشنی میں تومولاناصاحب مجھے بس ناچیز سے نظرآتے تھے۔
خیروہ دِن جس کامیں ذِکرکررہاہوں حسب ِ معمول جب سڑک سے میرا گذرہورہاتھاتو مولاناصاحب کوایک پیرافٹ ِ کیساتھ کھڑا پایا۔وہ خلاف ِمعمول اچھے خاصے پریشان نظرآرہے تھے ۔اُن کے چہرے پرہوائیاں اُڑرہی تھیں ۔وحشت کاایک عالم طاری تھا۔جاڑوں کی شدیدسردی کے باوجود انکے چہرے سے پسینے کے قطرے اسطرح ٹپک رہے تھے جیسے کوئی ابھی ابھی تولیہ اِستعمال کیے بِنانہادھوکرباتھ روم سے نکلاہو۔اُس دن نہ جانے کیسے میری فرعونیت پرانسانیت غالب آگئی۔میں نے مُولاناصاحب کے ذراقریب جاکرپوچھا؟۔
’’مولاناصاحب یہ کیاحال بنارکھاہے ۔خداخیرکرے ۔کہیں دشمنوں کوزکام تونہیں ہوگیا‘‘۔
میرے سوال کے جواب میں مولاناصاحب نے آہستہ آہستہ بتاناشروع کیا۔
’’آج جب ادھرسے گذررہاتھا توخلافِ معمول میرے ہاتھ میں قرانِ مجیدکے مختلف پاروں کی جلدیں تھیں جومیں اپنے شاگردوں کودینے کیلئے لے جارہاتھا ۔عین اُسی وقت کچھ موٹرسائیکل سوارغیرریاستی سیاح بھی وہاں سے گذررہے تھے ۔یہ غالباً کشمیرکی سیاحت کیلئے جارہے تھے ۔مجھے دیکھاتورُک گئے ۔پھرپاروں کی طرف اشارہ کرکے فرمانے لگے یہ کیاہے۔جب میں نے بتادیایہ کیاہے توکہنے لگے اسمیں سے کچھ پڑھ کرسنائو۔اُن کایہ کہناتھاکہ میں نے بڑی خوش الحانی کیساتھ اسلامی تصّورقیامت اورسزاوجزاکے حوالے سے آیات ِ قرانی تلاوت کیس۔یہ سناتو کہنے لگے کہ سننے میں تویہ سب اچھالگتاہے مگرسمجھ میں کچھ نہیں آتاہے۔یہ آوازہی آوازہے مگریادرکھوکہ سننے والے جس آوازکو سمجھ نہ پائیں اُسکااثردیرپانہیں ہوتا۔یہ آوازآوازکی حدتک ہی رہتی ہے اورپھریہ اپنی گونج کی ایک ہلکی سی یادچھوڑکررخصت ہوجاتی ہے ۔ہوسکے تویہ سب اپنی زبان میں بیان کرو۔پھرمیں نے بڑے مدّلل اندازمیں اِن آیاتِ قرانی کی تفسیراپنی زبان میں بیان کرتودی مگر‘‘۔
اتناسا بتاکرمولاناصاحب خاموش ہوگئے۔ اُن پرایک خوف ساچھایا ہواتھا۔ یہ دیکھ کرمجھے شک ساہواتومیں نے قدرے ترش لہجے میں کہا،
’’کیااِس کے بعدانہوں نے آپکوکچھ بر ابھلاکہاہے۔آپکی شان میں کوئی گستاخی کی ہے ۔ان کاحلیہ توبتائیے ۔ابھی پولیس کی اگلی چوکی پرفون کرکے انکی خبرلینے کاانتظام کرتاہوں‘‘۔
میرایہ رنگ دیکھ کرمولاناصاحب قدرے سنبھلے اورپھرٹھہرٹھہرکربتانے لگے ،
’’نہیں صاحب ایسی کوئی بات سرے سے ہوئی ہی نہیں تھی اوراگرہوتی بھی تویہ میرے لیے بڑی بات نہیں تھی ۔میرے دل میں کسی چھوٹی سی ناگواربات کاغبارابناکراڑانے سے بہترذراسی چشم پوشی اور درگذر کرنے کا جذبہ ہے ۔مگران بیچاروں نے توایسی کوئی بات ہی نہیں کی تھی‘‘۔
سچ پوچھو،میں دفترکیلئے لیٹ ہورہاتھا۔تو مولاناصاحب کی یہ بے سرپیرکی سنتے سنتے تنگ آنے لگاتھا۔میرایہ بدلاہوا رنگ دیکھ کرمولانا صاحب ذرا سپاٹ لہجے میں بتانے لگے،
’’بات صاحب دراصل یہ ہوئی تھی کہ جب میں یومِ حشراورسزاوجزاکے تعلق سے احکامات اِلٰہی کی مفصّل تشریح بیان کرچکاتو یہ سب سیاح بیک زبان کہنے لگے کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے آپکوبے مثال ،سدابہارروشن تعلیمات سے نوازاہے ۔اللہ کے آخری نبی محمدعربیؐ ان تعلیمات کومکمل طورپرآپ تک پہنچاکراپنی ذمہ داری پوری کرگئے ۔پھرآگے جن لوگوں تک یہ پیغام اِلٰہی نہیں پہنچ پایاتھا اُن تک اِسے پہنچانا آپکی ذمہ داری تھی ۔آپ پرلازم تھاکہ اس طرح ڈرتے اورڈراتے جس طرح ڈرنے اورڈرانے کاحق تھا مگرافسوس آپ نے اپنے حصّے کی ذمہ واری کوپورانہیں کیا۔تم عارضی زندگی کی لذتوں میں کھوکردائمی زندگی کے تقاضوں کوبھول گئے۔ یادرکھومولاناصاحب جب قیامت کے دِن ہماری پیشی ہوگی توہم آقاؐ کے سامنے تمہارا گریباں پکڑکرشکایت کریں گے کہ بیشک آقاؐآپ تواپنے حصّے کی ذمہ واری پوری کرگئے مگران لوگوں نے اپنی ذمہ واری کوپورانہیں کیا۔خبردار ہوکربھی انہوں نے ہم بے خبروں کوخبردارنہیں کیا۔مولاناصاحب ذراسوچوتوسہی ،ہماری دادرسی ہوئی توپھرتمہاراکیاہوگا‘‘
مولاناصاحب اتناسابتاکرزاروقطاررونے لگے تھے ۔ان کی ہچکی سی بندھ گئی تھی ۔مگر اِس سب کامجھ پرکچھ بھی اثرنہیں تھا۔میںوہی بٹّے کابٹہّ تھا ۔یہی نہیں بلکہ میں اُلٹادِل ہی دِل یہ سوچ کرمولاناصاحب کوکوسنے لگاتھا کہ جن لوگوں کے نزدیک وقت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی وہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کے سوچنے میں وقت کاخواہ مخواہ زیاں کرتے رہتے ہیں ۔اب میں جلدی جلدی گھرواپس لوٹنے لگاتوگھرکے عین سامنے واقع چھوٹے سے دریا کے کنارے چل رہاتھا توپتھر ایک دریائی بٹّے کیساتھ پائوں کے انگوٹھے کواس زورکی ٹھوکرلگی کہ مارے درد کے میری چیخ نکل گئی۔ میں نے شدّت دردسے دانت پیستے ہوئے کہا،
’’ہائے مُوذی بٹّے تم پرلعنت خداکی ۔تم نے تومیری جان ہی لے لی تھی ‘‘۔
تبھی اچانک مجھے محسوس ہواکہ سنگِ بے زبان (بٹّے )کوگویاقوتِ گویائی مل گئی تھی اوروہ مجھ سے مخاطب ہوکرکہہ رہاتھا،
’’دانااپنے ہم صفتوں پراسطرح لعنت نہیں بھیجاکرتے ہیں‘‘۔
’’مگرظالم کون ہم صفت ۔تم اس سنگِ بے جان ،میں صاحب جان ۔یہ کیسی ہم صفتی ؟مناسبت ٹھہراتے شرم نہیں آتی۔‘‘
میں نے دردسے چیں بچیںہوتے ہوئے کہاتواُدھرسے پھرآوازآئی ،
’’اِدھردیکھو توسہی ۔میں ہمیشہ پانی میں رہتاہوں ۔کبھی کبھی پانی کے بہائو کے ساتھ ساتھ بہہ بھی جاتاہوں ۔ٹھہرے ہوئے پانیوں میں ٹھہربھی جاتاہوں مگر جسطرح تم عالموں کی رفاقت میں رہ کر اُن کی باتوں کاکوئی اثرقبول نہیں کرتے ،اسی طرح میں بھی پانی میں رہ کرپانی کاکوئی اثرقبول نہیں کرتاہوں ۔توڑکراندرسے دیکھوگے تو اُسی طرح خُشک کاخُشک نظرآئوں گا جیسے کوئی بھی دُوسرا خشکی کابٹّہ ہوتاہے‘‘۔
ابھی وہ یہاں تک بو ل پایاتھاکہ میں نے اسے غصّے سے گھورکردیکھاتووہ تھوڑارُکااورپھربڑی شائستگی سے کہنے لگا۔
’’بڑے میاں آپ خواہ مخواہ ناراض ہونے لگے ہیں۔اب خداراتم ہی فیصلہ کردو۔ہم ہم صفت نہیں تواورکیاہیں؟‘‘۔
���
کوہُسارکرائی اُودھمپور
رابطہ نمبر۔9419166320