بلا شبہ آج ہمارے معاشرے کا ہر شخص امیرہو یا غریب اپنے بچوں کی حصول تعلیم کے لیے کوشاں نظر آرہا ہے۔چونکہ تعلیم و تدریس ، تحقیقات و تجربات کی دنیا ہےاور ہر شخص اپنے اند ر تجدد و جدت طرازی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ظاہر ہے کہ تعلیم انسانی زندگی کے لئے اتنی ہی اہم ہے جتنا کہ زمین کے لئے سورج۔اگر انسان تعلیم یافتہ نہ ہو تو وہ ضلالت وگمراہی کی تاریکی میں گم ہوکر رہ جاتا ہےجبکہ موجودہ دور ایٹمی، سائنسی اور صنعتی ترقی کا دور ہے، بنیادی عصری تعلیم، ٹیکنیکل تعلیم، انجینئرنگ، وکالت، ڈاکٹری اور مختلف جدید علوم حاصل کرنا توآج کے دور کا لازمی تقاضا ہے۔ لیکن جہاں جدید علوم ضروری ہیں و ہیں دینی و اخلاقی تعلیم بھی بے حد ضروری ہے، جس کے بغیرکہیں پر بھی کوئی صالح اور نیک معاشرہ تشکیل نہیں پاتا ہے۔چنانچہ آج کی دنیا انتہائی تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے، عالمگیریت کے اس دور میں زبان کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی مختلف زبانوں میں مہارت حاصل کرنا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ مدارسِ اسلامیہ کے طلبہ کو جو کہ علم دین کے ساتھ ساتھ جدید علوم میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں، کے لیے زبان کی مہارت ایک بنیادی عنصر بن گئی ہے۔مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے زیادہ ترمدارسِ اسلامیہ میں دی جانے والی تعلیم دینی علوم پر ہی مبنی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ان طلبہ کی اکثریت صرف عربی اور اپنی مادری زبانوں تک محدود رہتی ہے۔ اگرچہ عربی قرآن و حدیث کی زبان ہے اور اس کی اہمیت مسلمہ ہے، لیکن آج کی دنیا میں دوسری زبانوں پر عبور حاصل کیے بغیر ترقی کی منازل طے کرنا دشوار ہے۔زبان انسانی رابطے کا بنیادی ذریعہ ہے۔ زبان کے بغیر نہ تو ہم اپنی بات دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کی بات سمجھ سکتے ہیں۔ آج کے دور میں، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی وسعت کے ساتھ، مختلف زبانوں کی معلومات تک رسائی نہایت اہم ہو گئی ہے۔ انگریزی، فرانسیسی، چینی اور ہسپانوی جیسی زبانیں بین الاقوامی مواصلات میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے مدارسِ اسلامیہ کے طلبہ اپنی تعلیم کے دوران دینی علوم میں مہارت حاصل کرتے ہیں، لیکن جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں زبان کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ مسئلہ انہیں مختلف شعبوں میں مواقع سے محروم کر دیتا ہے۔جبکہ کثیر زبانی مہارتیں رکھنے والے افراد کو بین الاقوامی سطح پر بہتر مواقع ملتے ہیں۔ مختلف زبانوں میں مہارت کے باعث مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کو مختلف شعبوں جیسے تدریس، سفارت کاری، ترجمہ نگاری اور تحقیق میں مواقع میسر آ سکتے ہیں۔نئی زبان سیکھنے سے انسان کو نئی ثقافتوں اور علمی ذخائر تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ مختلف زبانوں کے ادبیات اور سائنسی تحقیقات کا مطالعہ کرنے سے طلبہ کا علمی دائرہ وسیع ہوتا ہے۔زبان سیکھنے سے نہ صرف علمی بلکہ ذاتی ترقی بھی ممکن ہوتی ہے۔ انسان مختلف لوگوں سے میل جول کر سکتا ہے، ان کے مسائل سمجھ سکتا ہے اور معاشرتی طور پر بھی زیادہ متحرک ہو سکتا ہے۔اس لئے لازم ہے کہ مدارسِ اسلامیہ کو جدید تقاضوں کے مطابق اپنے نصاب میں زبانوں کی تعلیم شامل کرنی چاہیے۔ عربی اور اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی اور دیگر بین الاقوامی زبانوں کی تعلیم بھی دیجانی چاہئے ،نیز مدارس کے طلبہ کو جدید تدریسی طریقوں سے بھی آشنا کرانا چاہیے تاکہ وہ زبانوں کو بہتر طریقے سے سیکھ کر جدید دنیا کے چیلنجز کا بہتر انداز میں مقابلہ کر سکیں گے۔آج کے دور میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا جیسے جدید ذرائع تعلیم و تعلم کے نئے امکانات پیدا کر چکے ہیں۔ مدارس کے طلبہ کو ان ذرائع سے استفادہ کرنا چاہیے تاکہ وہ جدید زبانیں بہتر طریقے سے سیکھ سکیں اور ان کے عملی اطلاق میں مہارت حاصل کر سکیں۔الغرض جہاںہمارے مدارس کو اپنے تعلیمی نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے وہیںمدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کو عملی زندگی میں بھی زبان کے استعمال پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ چاہے وہ درس و تدریس کا میدان ہو یا کوئی اور پیشہ، زبان کی مہارت انہیں ہر جگہ کامیاب بنا سکتی ہے۔ منتظمین ِمدارس کو زبان کی تعلیم میں اپنا کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے، نہ صرف دینی علوم بلکہ جدید زبانوں کی تعلیم بھی فراہم کرنی چاہیے تاکہ طلبہ ہر میدان میں کامیاب ہو سکیں۔