دنیا آج امن و آشتی کی آرزو کرتی ہے اور سکون کے جزیرے تلاش کرتی ہے ۔روزانہ دعائیں مانگی جاتی ہیں اور تقاریر کئے جاتے ہیں ۔لیکن یہ سب لاحاصِل مشقیںہیں ۔کیونکہ جب تک انسان اصل وجوہات کی نشاندہی نہیں کرے گا تب تک یہ ممکن نہیں ہے کہ دنیا امنو سکون کا آشیانہ بنے ۔بنی نوع انسان جوں جوں ترقی کے نئے منازل طے کرتا گیا، نئےنئے مسائل کھڑے ہوتے گئے ۔خود غرضی اور لالچ نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور ہمدردی ،بھائی چارگی اور انسانیت نفرت کے شعلوں میں بھسم ہوگئے ۔اس ضمن میں جو سب سے زیادہ خطرناک اور مضر قدم انسان نے اٹھایا، وہ سرحدوں کا وجود ہے ۔سرحدوں نے نہ صرف ایک زمین کے ٹکڑے کئے بلکہ انسانی وحدت کو بھی چور چور کیا ۔سرحدوں کی وجہ سے دو طرح کے محافظ وجود میں آگئے ،ایک سرحد کے اُس پار اور دوسرا سرحد کے اِس پار ۔دونوں ایک دوسرے پر بندوق تانے کھڑے ہیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ۔اس سرحد کی وجہ سے مختلف ممالک خلق ہوئے اور پھر مختلف ممالک کے مختلف حکمران ۔مختلف حکمرانوں کے مختلف عقائد ،مختلف سوچ ،مختلف پالیسیاں اور یہ مختلف نظریات دھیرے دھیرے اختلافات میں بدل گئے ۔اختلافات نے آہستہ آہستہ حسد ،بغض ،بخل ،کینہ ،نفرت ،عداوت اور آخر میں بغاوت کو فروغ دیا ۔یوں ایک انسان دوسرے انسان کا دشمن بن گیا ۔دشمنی نے بتدریج انسانیت اور بھائی چارے کے جذبات و احساسات کو زہریلی منگڑت کہانیوں سے مجروح کیا ،نتیجہ خونریزی اور طاقت کے مظہر تک پہنچ گیا ۔طاقت بڑھانے اور دکھانے کی سوچ نے ہتھیاروں کی دوڑ کو جنم دیا، اس طرح ہتھیاروں کی ایجادات کے خاطر انسانی ادراک کا استحصال شروع ہوا اور یہ استحصال آج بھی جاری ہے۔ استحصال اس لئے کہا جاسکتا ہے کیوں کہ انسانی تخیل اور فہمو ادراک کا موزوں استعمال انسانی فلاح و بہبودی کے لئے ودیعت کیا گیا تھا۔ یہ سلسلہ یہیں انسانی وسائل تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ بر و بحر میں پوشیدہ اور عیاں وسائل جو لوگوں کی بہبودی کے لئے قدرت نے خزانوں کی صورت میں مہیا رکھے تھے، بھی انسان سوز کاموں میں استعمال کئے جارہے ہیں ۔ان وسائل کے غلط استعمال نے غربت کو جنم دیا ۔غربت اور افلاس نے جرائم کو پروان چڑھایا اور سماج میں اقتصادی نابرابری کو عروج ملا ۔غریب غربت میں ڈھوبتے گئے اور رئیس دولت کے ذخیرے بڑھاتے گئے ۔آج بھی بجٹ کا بیشتر حصہ ہتھیاروں کی خریداری اور ایجادات کے لئے مخصوص رکھا جاتا ہے ۔ ہتھیاروں کی بڑی بڑی منڈیاں مورد ِوجود میں آگئیں ۔پھر ان ہتھیاروں کو بیچنے کے لئے طرح طرح کے پراپیگنڈے اپنائے جارہے ہیں ۔ہتھیاروں کے اس تجارت نے خفیہ بازاری شروع کی اور اس طرح دہشت گردی کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا ۔کیوںکہ ہتھیاروں کی فراہمی کے بغیر دہشت گردی ممکن نہیں ہے ۔ دہشت گردی نے مختلف رنگ اور روپ اختیار کئے ۔کہیں رنگ اور نسل کا روپ ،کہیں مذہبی منافرت کی شکل ،کہیں زبان اور ثقافت کا روپ اور کہیں ظلم و تشدد پر رد عمل کی صورت ۔اس آگ کو بھڑکانے کا کام اقتصادی خودغرضی نے کی ۔جہاں مطلب وہاں شاباشی اور جہاں فائیدہ وہاں بڑھاوا ۔اگر کسی ملک میں آپ کاروبار کرتے ہیں اور آپ کے ملک کو فائدہ مل رہا ہے تو کاروباری منڈی میں ظلم ہو یا جبر پوچھنے والا کوئی نہیں ہے ۔یہ جانب داری کسی آفت سے کم نہیں ہے ۔یہ بھی دنیائی دہشتگردی کو بڑھاوا دیتا ہے۔ سرحد نے دیشی ،ودیشی پہچان کے لئے آدھار کارڈ،شناختی کارڈ اور دوسرے لوازمات کو فروغ دیا ۔آنے جانے کے لئے پاسپورٹ اور ویزا وجود میں آئے ۔غور کرنے کی بات ہے کہ آخر کیوں ؟۔
ابن آدم کی شکل و صورت ایک ،ساخت اور انداز ایک ،خون ایک ،پہچان ایک ،جان ایک ،زندگی ایک ،آسمان ایک ،زمین ایک ،ماحول ایک اور سب سے بڑا خالق بھی ایک۔ پھر گورے اور کالے کا امتیاز کیوں ؟ مذہبی منافرت کیوں ؟زبان اور علاقے کی بنیاد پر تعصب کیوں ؟ خون ریزی اور جھگڑے کیوں ؟ ذات پات کے قصے کیوں؟۔
یہ سیما اب مذہبوں میں بھی گھس گئی ہے ۔ہر مذہب کے الگ الگ فرقے ،ہر فرقے کے الگ الگ گرو اور عقیدے ۔ایک گروہ دوسرے گروہ کا دشمن اور خون کا پیاسا ۔یہ حالت دیکھ کر خدا بھی اس مخلوق کو مٹانے کی سوچ رہا ہوگا،ایک ملک کے شہری دوسرے ملک کے پردیسی ۔یہ سب انسان کی اپنی بنی بنائی آفت ہے جو دھیرے دھیرے نفرت کی آڑ میں معصومیت کو نگل رہی ہے اور وحشت کو فروغ دے رہی ہے ۔دنیا آج ایسے رہبر کی کمی محسوس کر رہی ہے جو نفرت کی دیواروں کو گرا کر امن و امان کے قیام کو نہ صرف ممکن بنائے بلکہ دوام بھی بخشے ۔آج یہ ممکن نہیں لگ رہا ہے لیکن ایسے وقت کی جب مانگ بڑھتی ہے تو ضرور آجاتا ہے ۔
اگر قطروں میں اتفاق نہ ہو تو سمندر نہیں بنے گا ۔کرنوں میں یکجہتی نہ ہو تو دھوپ نہیں کھلے گی ۔چٹانوں میں جوڑ نہ ہو تو پہاڑ نہیں بنیں گے ۔روشنی کے بغیر چاند اماوس ، بھاپ کے بغیر بادل بےجان ،بارش کے بغیر زمین بنجر اور نظام کے بغیر انسانیت پامال ۔ریت کا ٹیلہ کتنا بھی اونچا ہو مضبوط نہیں ہوتا ۔خود غرضی اور لالچ زوال ہے ۔انتشار وہ بھلا ہے جو مضبوط سے مضبوط قلعے کو بھی ڈھادیتی ہے۔
نسل، رنگ، ملک، قوم، وطن، زبان ،خاندان،حسب و نسب وغیرہ کی بنیاد پر گروہ بندی عصبیت ہے۔جس طرح دیا سلائی کی ایک سلائی پوری دنیا کو جلا سکتی ہے، ٹھیک اُسی طرح عصبیت نے بھی پوری دنیا میں فتنہ برپا کر رکھا ہے ۔ اتحاد کے بغیر کسی بھی خاندان و قوم کی بقا و ترقی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔اتحاد کےراہ کی سب سے بڑی رکا وٹ عصبیت ہے، اس عصبیت نے جذبات کو منفی سمت میں پروان چڑھایا ہے۔ اس نےعقل کو ماؤف اور مفلوج کردیا ہے،اس نے تفریق اور بھید بھاؤ پیدا کیا ہے،اس کی پکار جاہلیت کی پکار ہے۔ جہاں عصبیت ہوگی، وہاں اتحاد قائم نہیں رہ سکتا۔ امن و آشتی کا تو سوال ہی نہیں ۔
( قصبہ کھُل کولگام،رابطہ۔9906598163)
������