بلا شبہ اپنی اس وادیٔ کشمیر کی ہر شےخوبصورت تھی ۔ شہر، قصبے، گاؤں، ندی نالے، چشمے، نہریں، ندیاں، دریا، پہاڑ، سڑکیں، کچے پکے راستے ،پگڈنڈیاں اور کھیت ، سب کچھ حسین تھا ۔ماحول، صاف ستھرا، موسم اپنے وقت پر بدلتے، کسان وقت پر فصل بوتے، وقت پر کاٹتے۔ برف باری کے بعد اُٹھنے والی سرد ہوائیں بھی جسم و جاں کے لئےفرحت بخش تھیں،سب کچھ فطرت کے اصولوں کے مطابق تھا، اس لئے غربت کے باوجود یہاں کے انسان خوش تھے۔ لیکن افسوس! کئی دہائیاں گزرنے کے بعد کشمیر اب پہلے جیسا نہیں رہا ۔جہاں آسمان میں ستاروں کی جھلملاہٹ صاف نظر آتی تھی وہاں اب ستارے دیکھنے سے بھی بمشکل نظر آتے ۔ فضائیں زہریلی، صاف شفاف ہوا آلودہ، ندیاں چشمے اور دریا ، بد بودار ہو چکے ہیں۔ آلودگیوں،زہریلی گیسوںاور دھوئیں نے آسمان کے محفوظ خطوں کوڈھانپنا شروع کر دیا اور سموگ کی شکل اختیار کر لی ہے، جس سے مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ شہریوں کو سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے ۔ہم اور ہمارے سیاست دان شروع میں آنکھیں بند کئے بیٹھے رہے،نتیجتاً اب حالات بد سے بدتر ہو گئے ہیں۔ پہلے پہل بھی دھند ہوتی تھی لیکن اُس میں شفافیت تھی لیکن اب یہ زہر آلود ہ ہوچکی ہے ۔فضا ئی آلودگی یا سموگ کے پھیلاؤ میں ہم سب ذمہ دار ہیں۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ ہم اپنے گھر پر توجہ دیں اور ایسے انتظامات کریں، جن سے یہ ابتر صورتِ حال بہتر ہو سکے ۔انتظامیہ کو بھی شاید اب ہوش آ گیا ہے، وہ بھی اقدامات کرنے میں مصروف عمل ہیں لیکن ہر ممکن کوشش کے باوجود قدرت کے کاموں میں مداخلت نہیں کی جا سکتی۔ خدا ہم سے راضی ہو جائے تو شاید اس تغیر میں کچھ بہتری آئے ۔ آج کل گاؤں ، قصبوں اور شہروں میںگاڑیاں کی تعداد اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ نہ صرف موٹر گاڑیوں بلکہ پیدل سفر کرنےوالوں چلنا محال ہو چکا ہے ۔اس بے ہنگم ٹریفک سے ڈیزل، پٹرول اور گیس کے اخراج ہونے سے فضا اس قدر آلودہ ہو چکی ہے کہ ماسک پہننا ضروری قرار دیا جا رہا ہے۔گاؤں میں فصلوں کی کٹائی کے بعد جلانے والا عمل بھی سموگ یا فضائی آلودگی کا سبب بنتا ہے، بھٹوں ، فیکٹریوں اور کریشرز سے نکلنے والا دھواں اور گردو غبار انتہائی زہریلا ہوتا ہے جو کہ سانس کی بہت سی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔اسی طرح میونسپل کارپوریشن کی طرف سے اژھَن بریہ وارسعدپورہ سرینگر میں شہر بھر کا کوڑا کرکٹ اور غلاظت کو جلانے والا انتہائی بدبودار زہریلادھواںنہ صرف فضا کو آلودہ کررہا ہے بلکہ اردگرد کے پانچ کلومیٹرائریاکی آبادی کے لئے مضرِ صحت اورزبردست کوفت کا باعث بنا ہواہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مضر صحت دھویں والی کارخانوں، بھٹوں، کریشرز اور کوڈا کرکٹ جلانے والے پروجیکٹوں کو شہروں سے دور غیر آباد علاقوں میں بنایا جائے۔ اس کے علاوہ سڑکوں ، شاہراہوں پر زیادہ سے زیادہ پبلک ٹرانسپورٹ لائی جائے ،اس عمل سے موٹرگاڑیوں و موٹرسائیکلوں کی تعداد میں کمی واقع ہو گی اور سڑکوں پر رش بھی کم ہو جائے گا۔سکولوں ،کا لجوں،یونیورسٹیوں کو بسیں مہیا کی جائیں تا کہ طالب علم گاڑیوں ، موٹر سائیکلوں کی بجائے بسوں میں سفر کریں۔سائیکل کو زیادہ اہمیت دی جائے اوراسکے فوائد اور کم قیمت پر سفر کی فراہمی کے لئےآگاہی مہم چلائی جائے۔ جہاں تک ممکن ہو سکے،سرکاری انتظامیہ اس کے حل کے لیے ہر ممکن اقدامات کریںاور ایسے آلات ایجاد کروائےجائیں جو آلودگی روکنے میں معاون ثابت ہوں۔آلودگی کو کم کرنے کے لیے نچلی سطح تک لوگوں میں آگاہی مہم شروع کی جائے، تا کہ لوگ اس مسئلے کو سمجھ سکیں اور آلودگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں ۔ جوہمیں مفت آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ درختوں کو کاٹنا ایک بڑا جرم قرار دیا جائےاور اس پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے ۔ فیکٹریاں ، کارخانے اور کریشرز والے، زہریلے مواد کی Treatmentنہیں کرتے ،اُن پر نہ صرف جرمانے کیے جائیں بلکہ اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئیں تو ان کا رخانوں فیکٹریوں کو بند کر دیا جائے۔ افسوس کہ ماحولیات کا محکمہ تو ہمارے یہاںتو موجود ہے لیکن اس کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس محکمے کو بااختیار اور متحرک کیا جائے تو جلد ہی اس کے اثرات نظر آنے لگیں گے اور ہماری آلودہ فضا اپنی اصل حالت کی طرف لوٹ آئے گی۔ان منصوبوں پر اگر آج سے ہنگامی بنیادوں پر عمل شروع کیا جائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ برس فضائی آلودگی میں کافی حد تک کمی واقع ہو چکی ہو گی۔اس کے علاوہ فیکٹریوں ، کارخانوں اور ندی نالوں کا قریہ قریہ گاؤں گاؤں جائزہ لے کر ان کا حل تلاش کرنا ہو گا۔ زہریلا دھواںاور مضر صحت گردو وغبار روکنے کے لیے سائنسی ذرائع اختیار کرنے پڑیں گے۔ اس کے علاوہ کارخانوں اور اسپتالوں اور شہروں کا کچرا ٹھکانے لگانے کے لئے مناسب اورمستقل حل تلاش کرنا ہوں گے ۔ صرف یہی نہیں قدرت کی حسین وادیاں جو کہ قدرت کا حسین شاہکار ہیں، انکو بھی آلودہ ہونے سے بچانے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے۔ آلودگی کا صفایا انتہائی ضروری ہے اگر ہم آلودگی کو نہ مٹاسکے تو آلودگی ہمیں مٹا دے گی۔