ہندوستانی فوج کے سربراہ بپن راوت کو کون سی ضرورت پیش آگئی کہ نئی دہلی میں منعقدہ ایک سیمینار میں انہوں نے بیک زبان چین اور پاکستان کو جنگ کی دھمکی دے ڈالی جس کا پاکستان نے تو نہیں البتہ چین نے سخت نوٹس لیا۔بادی النظر میں سب کچھ تو ٹھیک ہی چل اور لگ رہا تھا لیکن موصوف کی یہ گل افشانی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ جو دکھائی دے رہاہے یا جو دکھایا جا رہا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔میڈیا میں جو خبریں آتی ہیں ،ایسا لگتا ہے کہ وہ حکومتی تفتیش اور مشوروں کے بعد عوام تک پہنچتی ہیں یعنی سچائی کی اشاعت اور تبلیغ پرایک خفیہ روک ہے۔چین کے سربراہ شی پنگ اور ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے مابین بند کمرے میں کیا باتیں ہوئیں اور شی پنگ نے اپنی زبان میں مودی کو کیا سمجھایا؟کہیں یہ اسی کا اثر تو نہیں جو ہندوستانی فوج کے سربراہ کی زبان سے ایسی باتیں کہلوائی گئیں؟ فوج کا سربراہ کیو نکر ایسی بڑی بات کہے گااور وہ بھی مودی کے چین کے دورے کے اختتام کے دوسرے دن ہی؟دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔
دیکھئے، ہندوستان میں مودی حکومت کچھ تضادات کا شکار ہیں۔حکومت کس سمت میں کام کر رہی ہے کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔حکومت کی خارجہ پالیسی حتیٰ کہ داخلہ پالیسی کیا ہے ،اِن تین برسوں میں واضح نہیں ہو سکا ہے اور آئندہ بھی اس کے آشکار ہونے میں تامل ہے۔۷۰؍ دنوں سے جاری ڈوکلام کے فوجی کشاکش کے ختم ہونے پر میڈیا نے مودی حکومت کی پیٹھ تھپتھپائی اور ایسا تاثر پیش کیا کہ سب کچھ ٹھیک ہو گیا اور دونوں کی فوجیںپیچھے ہٹ گئیںلیکن اس کے لئے انگریزی کی ایک اصطلاح ’’ڈِس اِنگیج (Disengage)‘‘ استعمال کی گئی یعنی کہ دونوں ملکوں نے اپنی فوجوں کو ’’ڈِس اِنگیج‘‘ کیا ہے۔پہلے دونوں مصروف بہ عمل تھے اور اب دونوں عمل سے دست کش ہوگئے یعنی کہ جو کشاکش تھی وہ ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ عارضی طور پراُس کو روک دیا گیا ہے ، جب کہ چین نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ جو معاہدہ ہوا ہے اُس کی رُو سے وہ اپنی فوجوں کی گشت جاری رکھے گا البتہ سڑک کی تعمیر اُس نے فی الحال روک دی ہے۔اس ’’فی الحال‘‘ کو ہمارے اخبار والوں نے بھی لکھا۔
چین دنیا میں اپنی برآمدات کے لئے جانا جاتا ہے اور ہندوستان بھی اس کے لئے ایک بہت بڑا بازار ہے۔وہ کسی بھی طرح ہندوستانی مارکیٹ کو اپنے ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتا۔وہ یہ بھی جانتا ہے کہ موجودہ مودی حکومت قوم پرستی کے جذبے سے نہ صرف سرشار ہے بلکہ اپنے عوام کو بھی اس میں مبتلا کرنا چاہتی ہے اور بہت حد تک اس میں کامیاب بھی ہو چکی ہے۔اسی لئے ڈوکلام کے مسئلے کو اس نے عارضی طور پر پس پشت ڈال دیا کیونکہ سامنے پانچ ملکوں کی تنظیم ’’برکس‘ ‘کی سالانہ کانفرنس چین میں منعقد ہونا طے پائی تھی جس کی صدارت چین کو کرنا تھی۔ڈوکلام میں جو آپس میں تنا تنی تھی، اُس کے برقرار رہنے کی صورت میں اِس سالانہ تقریب پر آنچ آسکتی تھی اور چین دنیا میں اچھی نظر سے دیکھا نہیں جاتا۔اسی لئے چین نے پینترا بدلا اور مودی کا پرجوش خیر مقدم کیا۔دہشت گردی کے موضوع پر ہندوستان کے موقف کی تائید کی اور پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں کومٹانے کی حامی بھرلی لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ چین نے کہیں بھی پاکستان کو راست موردِ الزام نہیں ٹھہرایا کیونکہ اسے پاکستان کے ساتھ بھی تجارت کرنی ہے اور اُس کا جو’ ’چین پاکستان معاشی کوریڈور‘ ‘ہے جو پاکستان کے زیر ِانصرام کشمیر سے ہو کر گزرتا ہے،اُس کی تکمیل اور آغاز کے بعد دنیا میں چین ایک بڑی طاقت بن کے ابھرے گا اور ممکن ہے کہ اُس کے بعد وہ تجارت کے لئے ہندوستان پر انحصار نہ کرے کیونکہ اُس کی تجارت کے دائرۂ کار میں کئی گنا ا ضافہ ہو جائے گااور اس کے بعداُسے ہندوستان کی تجارت کی ضرورت نہیں رہ جائے گی۔دہشت گردی کے علاوہ مودی جی نے وہاں چین میں معیشت کے ڈیجیٹل ہونے کے فائدے بھی گنوائے اور یہ بیان دیا کہ’’ڈیجیٹل معیشت ے ترقی کی رفتار میں تیزی آسکتی ہے اور اس سے مسلسل ترقی کی ہدف حاصل کرنے میں بھی مدد ملے گی‘‘ ۔ہندوستانی میڈیا نے برکس کانفرنس میں مودی جی کی کامیابی کو خوب دہرایا جیساکہ انہوں نے پاکستان کو پچھاڑ دیا اور چین جاکر ہندوستان کے جھنڈے گاڑ دئے۔
ہر فورم پر مودی جی کے ۲؍پسندیدہ موضوعات ہیں،ایک پاکستان اور دوسرا ڈیجیٹائزیشن۔اِن تین چار برسوں میں انہیں پتہ ہی نہیں چل سکا ہے کہ ہندوستان کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ہندوستان کا مرض کچھ اور ہے اور نیم حکیم کی طرح وہ دوا کچھ اور تجویز کرتے ہیں ۔ایک ایک بچہ جانتا ہے کہ ہندوستان کا اصل مسئلہ پاکستان یا ڈیجیٹل نہیں ہے بلکہ غریبی ہے، بے روزگاری ہے، معیشت کی سست رفتاری ہے۔الیکشن جیتنے کے وہ حربے ہو سکتے ہیں لیکن حکومت کرنے کے نہیں۔بھلا بتائیے!ان تین چار برسوں میں پاکستان کا کیا بگڑ گیا ہے اور ہندوستان کتنا ڈِیجیٹائزڈ ہو گیا ہے؟اور اس ڈیجیٹائزیشن سے کیا خاص مل جانے والا ہے؟ کیا اس سے پہلے معیشت ترقی یافتہ نہیں تھی؟ بلکہ سچ پوچھئے تو آج سے زیادہ ہی تھی۔معیشت کو ترقی کی راہ دینے کے لئے یہ ایک اضافی رکن(tool) ہو سکتا ہے لیکن تمام کے تمام معیشت کی ترقی اسی پر منحصر ہویہ سراسر خام خیالی ہے۔
چین ہندوستان سے پوچھ رہا ہے کہ فوجی سربراہ کا جو بیان ہے وہ حکومت کا بیان ہے یا اُن کا ذاتی؟ اور وہ دھمکی والے انداز میں پوچھ رہا ہے یعنی کہ وہ وزیر اعظم مودی سے جاننا چاہتا ہے ۔ اس نے اپنے دفتر خارجہ کے توسط سے یہ جاننا چاہا ہے کہ ہندوستان میں جو تضادات دیکھنے کو مل رہے ہیں وہ کیونکر ہیں؟ یعنی ملک کا سربراہ کون ہے؟ کہیں ہم پاکستان کے نقش ِقدم پر تو نہیں چل رہے ہیں ؟۲۰۱۹ ء کے انتخابات کے نتائج اور بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد کہیں ۲۰۲۴ء کے انتخابات سے پہلے ہندوستان میں فوج کے فیصلہ کن رول کے لئے راستے تو ہموار نہیں کئے جا رہے ہیں ؟بی جے پی اور آر ایس ایس کے ذہن میں بہت کچھ ہے، ممکن ہے کہ ہمارے ذہن کی رسائی وہاں تک نہ ہو۔ہندوستان میں فوجی حکومت ہونے کی صورت میں مسلمانوں کا کیا حشر ہوگا، میانمار میں ہونے والے نسل کشی(ہولوکاسٹ) سے جوڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔اگرچہ میانمار میں کہنے کو آنگ سانگ سوچی کی جمہوری حکومت ہے لیکن ساری بھاگ ڈور فوج کے ہاتھ میں ہے۔وہ خود کہتی ہے کہ ۱۸؍ مہینوں کی جمہوری حکومت اتنے سنگین اور پرانے مسئلے سے کیسے نمٹ سکتی ہے؟کہنے کو وہ بین الاقوامی نوبل پیس پرائز یافتہ خاتون ہے جس کا مطلب امن و آشتی کو قائم رکھنا اُس کا فرض اولین ہونا چاہئے لیکن کیاوہ ایسا کر رہی ہے؟
۱۹۷۰ء میں مشرقی پاکستان ،بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی شدید پامالیا ں روکنے کے لئے ہم بے خوف و خطر میدان میں کود پڑے اور بنگلہ دیش کو معرض وجود میںلایا لیکن آج میانمار میں مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کرنے وہاں پہنچ گئے اور انسانی حقوق کی پامالی کرنے والوںکا ساتھ دینے میں ہمیں شرم نہیں آئی۔مودی کے ہندوستان میں خارجہ پالیسی کا یہی مطلب ہوتا ہے۔ہم نے روہنگیا مسلمانوں کو جو پناہ بھی دے رکھی ہے،اُس کی منسوخی کی بات ہمارے نائب وزیر داخلہ بڑی شان سے کرتے ہیں، وہ اس لئے کہ پناہ گزیں مسلمان ہیں۔خدانخواستہ اگر وہ ہندو ہوتے تو ہندوستان کا رویہ کیا یہی ہوتا؟ہرگز نہیں۔ہندوستانی مسلمان تو اپنی فکر میں مبتلا ہے ہی،اُسے اپنے دوسرے ملکوں کے بھائیوں کی فکر کرنے سے بھی روکا جا رہا ہے کیونکہ یہاں ممبئی میں آزاد میدان پولیس اسٹیشن نے روہنگیا مسلمانوں کی حمایت میں احتجاج کرنے کے اجازت نامہ کو بھی منسوخ کر دیا۔کیا ہندوستان پرمسلمانوں کا کوئی حق نہیں ؟
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883