ہر کوئی جرنلسٹ بننے کی کوشش نہ کرے

اس بات سے قطعی انکار کی گنجائش کی نہیں ہے کہ سوشل میڈیا کے آنے سے روایتی میڈیا کی فعالیت متاثر ہوتی ہے اور اب تقریباً ہر وہ فرد خود صحافی یا لکھاری بن گیا ہے جو سوشل میڈیا اکائونٹ رکھتا ہو۔تازہ ترین خبریں بریک کرنے کی ایک ایسی دوڑ لگی ہے کہ سوشل میڈیا کا ہر شاہسوار صحافی بن کر اس کوشش میں لگا ہوتا ہے کہ وہ سب سے پہلے اس کے اکائونٹ سے خبر بریک ہو ۔ ایک ایسا رجحان چل پڑا ہے جہاں بیشتر لوگ فیس بُک، ٹویٹر، وٹس ایپ یا کسی اور سماجی رابطہ ویب گاہ پر صحافی بن کر لوگوں تک خبریں پہنچانے میں ایک دوسرے سے سبقت لینے میں لگے رہتے ہیں اور جموں وکشمیر میں یہ رجحان دیگر جگہوں سے قدرے زیادہ ہی ہیں۔ ہر چیزشیئر ہوتی رہتی ہے۔نہ صحافت کے پیمانوں کا کوئی پاس و لحاظ رکھا جاتا ہے اور نہ ہی شیئر کئے جانے والے چیزوں کی صداقت جاننے میں کسی کو دلچسپی ہوتی ہے ۔بس ایک ہوڈ سی لگی ہے کہ سب سے پہلے کون ؟۔اب تو عالم یہ ہے کہ پلمبر بھی صحافی بن گیا توانجینئرنے بھی صحافت کا لبادہ اوڑھ لیاہے۔ ڈاکٹر نے بھی اس میدان میں پنجے گاڑھے ہیں تو ترکھان اور مزدور نے بھی فارغ وقت میں چیزوں کو شیئر کرنا شروع کردیاہے ۔نتیجہ کے طور پر وہ اصل صحافی کہیں غائب ہی ہوگئے ہیںجنہوں نے صحافت کی تعلیم حاصل کی تھی یا جو عرصہ دراز سے اس شعبہ میں عملی طور کام کرررہے ہیں۔ وائرل کی گئی خبروں، ویڈیو اور تصاویر میں کوئی صداقت ہو نہ ہو، ان خبروں سے کسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے یا کسی کو بلاوجہ فائد ، یہ سوچے بنا خبروں کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے اور وٹس ایپ پر فاروارڈ (Forward) کرنے کا خطرناک سلسلہ زوروں پر ہے ۔دراصل سوشل میڈیا کے شاہسوار سمجھ چکے ہیں کہ اس متبادل میڈیا کی طاقت بہت زیاد ہ ہے تاہم شاید وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھے ہیں کہ اگراسی طاقت کا صحیح استعمال نہ کیاجائے تو یہ اپنے اور غیروں ،دونوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوجاتا ہے اور عملی طور یہی کچھ ہو بھی رہا ہے۔
کورونا وائرس کی وباء پھوٹ پڑنے کے ابتدائی دنوں میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ایک غلط اطلاع جان لیوا ثابت ہوئی۔ فروری کے اوئل میں ایران میں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہوا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ صنعتی استعمال والی شراب پینے سے ناول کورونا وائرس ختم ہوجاتا ہے۔اسلامی ریاست ہونے کی وجہ سے اگرچہ ایران میں شراب حرام ہے اور شراب پینے پر سخت پابندی عائد ہے لیکن کچھ لوگوں نے صنعتی استعمال والی الکوحل عوام میں تقسیم کر دی اور ہزاروں لوگوں نے کورونا کے علاج کی غرض سے پی لی، جس کے باعث کافی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 20فروری سے7اپریل تک ایران میں 728افراد صنعتی استعمال والی شراب پینے اپنی جان سے ہاتھ دو بیٹھے جبکہ درجنوں کی تعداد میں لوگ نابینا ہوگئے۔بنا جانچے پرکھے کسی بھی اطلاع کو سوشل میڈیا پر پوسٹ یا فاروارڈ کرنے کا خمیازہ …اتنی ساری ہلاکتیں! …جی ہاں!۔
سوشل میڈیا کی طاقت اور اس پر غلط معلومات کو وائرل کرنے کی تباہ کاریوں کی اس سے بڑی مثال شاید اور کوئی نہیں ہوسکتی۔گذشتہ ہفتے حول سرینگر میں قیام پذیر سرحدی ضلع کے ایک شہری کا ویڈیو وائرل ہوا جس میں موصوف کی غریبی اور مفلوک الحالی کی عکاسی کی گئی اور اس کیلئے مدد کی اپیل کی گئی تھی۔ لوگوں نے بنا جانچ پڑتال کئے فیس بُک، ٹویٹر اور وٹس ایپ پر اس ویڈیو کو اس قدر وائرل کردیا کہ محض24گھنٹوں کے اندر مذکورہ شہری کے بینک کھاتے میں 27لاکھ روپے کی رقم جمع ہوگئی اور دوسرے ہی روز اس شہری کے مشکوک ہونے کی خبریں بازگشت کرنے لگیں۔ ایک روز قبل جو لوگ اس کیلئے مدد کی اپیلیں کرکے اس کا ویڈیو وائرل کررہے تھے، اگلے ہی روز وہی لوگ سوشل میڈیا پر اس کے فراڈ ہونے کی خبروں کی تشہیر کرنے لگے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے جانثاروں نے نہ تو اس شہری کی مجبوری کی صداقت کو جاننے کی کوشش کی اور نہ ہی اس کے فراڈ ہونے کی تصدیق کرنے کی کوشش کی۔ بس جو سامنے آیا، اُسے شیئر کرکے وائرل کردیا۔ اس کے بات کے قوی امکانات ہیں کہ غریبوں کی مدد کیلئے ہمیشہ پیش پیش رہنے والوں کے دلوں میں اس واقعے سے کئی سارے سوالات اُبھرے ہونگے ، جن کا اثر حقیقی مستحق افراد پر براہ راست پڑیگا اور ایک غلط پوسٹ مستقبل میں کئی غریبوں اور ناداروں کی مدد میں آڑے آسکتا ہے۔
ہمارے یہاں سوشل میڈیا پر غلط معمولات عام کرنے کا بہت زیادہ چلن ہے اور اس میں پڑھے لکھے لوگ بھی پیش پیش ہے، جو ایک انتہائی تشویشناک امر ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ایسی معلومات بھی عام کی جاتی ہے جن کا صحیح ہونے کے باوجود بھی عام لوگوں تک پہنچانا سود مند نہیں ہوتا۔کورونا وائرس کے دوران ہمارے یہاں ایک اور رجحان عام ہوگیا ہے جہاں ڈاکٹر حضرات ویڈیو بنا کر لوگوں کو مفید مشورے دے رہے ہیں۔ لیکن یہ ویڈیو بنانے کا عمل اب مفید مشوروں اور احتیاطی تدابیر تک ہی محدود نہیں رہا۔ڈاکٹر حضرات ویڈیو پوسٹ کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے لگے ہیںاور اب ایسے موضوعات پر ویڈیو بنانے لگے ہیںجن کا عام لوگوں کیساتھ کوئی لینا دینا نہیں بلکہ یہ ویڈیو صرف لوگوں میں خوف و ہراس اور کنفیوژن پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ اب ڈاکٹر حضرات عام لوگوں کیلئے بنائے گئے ویڈیو میں ایسی تفصیلات اور انکشافات کررہے ہیں جن کا ذکر طبی سمیناروں، ٹرایننگ کورسوں، طبی کانفرنسوں یا ڈاکٹر حضرات کے درمیان بحث و مباحثے میں ہونا چاہئے تھا۔ 
حال ہی میں وادی کے ایک ڈاکٹر صاحب نے اپنا ویڈیو جاری کی اوراس میں دو دوائیوں کا ذکر کیا ۔ ڈاکٹر صاحب پہلے کہتے ہیں کہ نئی تحقیقی رپورٹوں کے مطابق جو مریض یہ دوائیاں استعمال کرتے ہیں ،اُن میں کورونا وائرس جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے اور پھر خود یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ادویات مذکورہ مریضوں کو کورونا وائرس سے تحفظ فراہم کرتی ہیں اور میڈیا کو ان ادویات کو مشکوک بنانے کا قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ڈاکٹر موصوف کا ویڈیو دیکھ کر یہ دوائیاں استعمال کرنے شش و پنج میں پڑ گئے ہیں کہ آیا یہ دوائیاں لینا جاری رکھیں یا بند کردیں۔ ان ادویات پر میڈیا رپورٹس شاید وادی کے مریضوں نے نہیں دیکھی تھیں، لیکن ڈاکٹر صاحب کا ویڈیو ایسے بہت سارے مریضوں تک پہنچ گیا ہے جو ان کا استعمال کرتے تھے اور ڈاکٹر صاحب نے ان مریضوں کو خود ہی کنفیوژن میں ڈال دیا ہے۔
لوگوں کیلئے مفید مشوروں والے ویڈیو بنانا اچھی بات ہے لیکن ویڈیو میں ایسی معلومات فراہم کرنا، جو کنفیوژن کا باعث بنیں، سے گریز کیا جانا چاہئے۔ بڑے معاملات کو ویڈیو میں موضوعِ بحث بنانے کیلئے روایتی ذ رائع ابلاغ کا راستہ اپنایا جانا چاہئے۔ بھلے ہی آپ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے کہیں زیادہ پڑھے لکھے کیوں نہ ہو ،لیکن عوام تک کیا پہنچانا ہے، کس صورت اور کس حد تک پہچانا ہے، اس کا تعین ایک صحافی سے بہتر اور کوئی نہیں کرسکتا کیونکہ وہ خبر کی ترسیل کے تمام بنیادی رموز سے آگاہ ہوتا ہے۔ 
سوشل میڈیا پر ویڈیو ز، پیغاموں، تصاویر اور خبروں کو شیئر کرنا کوئی بری بات نہیں لیکن ہم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنی سطح پر اس کی جانچ پڑتال کریں۔ جوچیز ہم شیئر کرنے جارہے ہیں ،اُس کی اعتباریت کو پرکھیں۔ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ میں جو شیئر کرنے جارہا ہوں، کہیں کسی پر اس کا منفی اثر تو نہیں پڑے گا؟۔ میں جو خبر شیئر کررہا ہوں ،کیا کسی معتبر میڈیا ادارے نے کہیں سے اس کی تصدیق کی ہے؟۔ میں جو تصویر شیئر کرنے جارہاہوں، وہ اصلی ہے یا فوٹوشاپ کے ذریعے اس کی ہیت تبدیل کردی گئی ہے؟ ۔
سوشل میڈیا پر شیئرنگ اور بریکنگ کے اسی منفی رجحان کی وجہ سے جعلی خبروں کی ترسیل عام ہوچکی ہے اور سوشل میڈیا کافی حد تک باعث عذاب بن چکا ہے ۔اب لوگ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا ریگولیٹ ہونا چاہئے ۔بالکل ہونا چاہئے اور ہو بھی رہا ہے ۔ہر جگہ سائبر جرائم کے انسداد کیلئے قوانین بنائے گئے ہیں۔سائبر کرائم کی روک تھام کیلئے الگ الگ محکمے تشکیل دئے جاچکے ہیںاور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سائبر کرائم کی نگرانی اور انسداد کیلئے بالکل الگ شعبے قائم ہوچکے ہیں لیکن اس بات سے بھی مفر نہیں کہ کوئی بھی جرم اُس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک خود سماج اس جرم سے توبہ نہ کرلے ۔بے شک قانون نافذ کرنے والے ادارے سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنے کی کوشش کریں گے لیکن جب تک خود لوگوں کے اندر سوشل میڈیا کاصحیح استعمال کرنے کا شعور پیدا نہیں ہوتا ،اُس وقت کوئی بھی قانون سازی یا ادارہ مؤثر اور کارگر ثابت نہیں ہوسکتا۔ 
سوشل میڈیا کا بے شک استعمال کریں لیکن فائدے اور اچھائی کی ترویج کیلئے کریں۔اس طاقت کے بے جا استعمال سے گریز کریں۔اس کی اہمیت کو سمجھیں اور اسی لحاظ سے اس کا استعمال صحیح سمت میں یقینی بنائیں۔خدا کیلئے ہر کوئی جرنلسٹ بننے کی کوشش نہ کرے ۔صحافت کا کام صحافیوں پر اور بریکنگ نیوز کا کام ذرائع ابلاغ پر ہی چھوڑ دیا جا ئے تو بہتر رہے گا کیونکہ صحافی ہی جانتا ہے کہ صحافت کیسے کرنی ہے اور ذرائع ابلاغ سے جڑے لوگوں کو ہی معلوم ہے کہ کوئی خبر بریک کرنے سے پہلے کن تقاضوں کو پورا کرنا لازمی ہے ۔گوکہ اس بات سے بھی انکار کہ روایتی میڈیا میں بریکنگ نیوز کے نام پر ایک دوڑ لگی ہے جہاں صحافتی اصولوں کو پامال کیاجاتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی چونکہ روایتی میڈیا جوابدہی سے مبرا نہیں ہے تو حقیقی صحافی سوشل میڈیا کے شاہسواروں کے برعکس اپنی طرف سے صحافت کے اعلیٰ اقدار پر عمل پیرا ہونے کی کوشش ضرورت کرتے ہیں جس سے اگر کسی کو فائدہ نہیں ہوتا ہے تو کم از کم نقصان بھی ہوتا ہے۔
(مضمون نگار کشمیر عظمیٰ کے سینئر ادارتی رکن ہیں)