ہر دُکھ و درد کا مداوا صرف انسانیت ہے

  زمینی اور آسمانی آفتوں کی تاریخ انسانی وجود سےشروع ہوتی ہے اور جب بھی کسی قوم پر خدا کی ناراضگی بڑھ جاتی ہے تو آندھی،طوفان ،سیلاب ،زلزلے اور وبائی بیماری کی صورت اختیار کرکے اُسے آلام و مصائب میں مبتلا کرتی ہے۔موجودہ کرونائی قہر نے جہاں پہلے مرحلے میں ساری دنیا کو بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات سے دوچا ر کرکے ہلا کے رکھ دیاتووہاںآج اس وبائی قہرنے اپنےتیسرے مرحلےمیںبرصغیر کے کروڑ وںلوگوںکا نظام ِزندگی پھر سے مفلوج کردینا شروع کردیاہے ۔ ہندوستان میں روزانہ ہزاروں مثبت معاملات سامنے آرہے ہیں اور یومیہ تین سےچار سو کے درمیان اموات ہورہی ہیں۔سال ِ گزشتہ کورونا نے جس بہیمانہ انداز میںبھارت پر قہر ڈھایا ،اُس کی ہیبت ناک تصویریں ابھی تک دُ ھندلی ہونے کا نام نہیں لیتیںاور اب رواں سال میں یہ وائرس آگے کیا کرسکتا ہے، قبل از وقت کچھ کہا نہیں جاسکتا۔گزشتہ سال کی انتہائی سنگین صورت ِحال کے دورا ن بھی انسانی فطرت کے تقاضے کے مطابق بیشترانسانوں کا دل دہل گیا اور وہ نوع ِ انسانی کی مدد کے لئے پیش پیش رہے اورمحض انسانیت کے ناطے اپنے جانوں کی پرواہ کئے بغیراُن لوگوں کے ساتھی اور مددگار بنے، جو انتہائی مجبور ، بے کس اور بے بس تھے۔ایسے لوگ انسانیت کے لئےجہاں کسی کے لئےاپنے ذاتی خرچے پر آکسیجن فراہم کراتے رہے وہیںبغیر کسی ذات یا مذہب کے لاوارث لاشوںکو شمشان گھاٹ پہنچاکر اُن کا انتم سنسکار کرانے کا کام بھی کرتےرہے۔ چنانچہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ فطرت اور انسان کے درمیان ازل سے مہر اور قہر کا جو رشتہ چلا آرہا ہے ،اس میں فطرت کے غضب ناک ہونے پر جو آفات نازل ہوتی ہیں اُن کا مقابلہ کرتے وقت بہت سےلوگوں میںوہ حقیقی انسان نمودار ہوجاتا ہے، جس کی نہ کوئی نسل ہوتی ہے نہ کوئی قوم،نہ مذہب اور نہ عقیدہ۔اُس وقت وہ نہ صرف انسان ہوتا ہےبلکہ انسانیت کے ناطے فطرت کے چیلینجز کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک دوسرے کا ساتھی اور مددگارہوتا ہے ۔وہ رنگ دیکھتا ہے نہ مذہب اور نہ قومیت کو خاطر میں لاتا ہے ،محض انسان ہونے کے ناطے انسان کی مدد کرکے انسان ہونے کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ا ن حالات میں بلاشبہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملک کےعوام کی بہرصورت حفاظت کرنے کے لئے کمر بستہ ہوجائے۔لوگوں کی زندگیوں کو بچانےکے لئے جو بہتر اور مثبت طریقہ ضروری ہو ، کسی لیت و لعل کے بغیر اُسے اختیار کرے۔ کورونا سے بچاؤ کی تدابیر پر عمل کرانے اورسرکاری ہسپتالوںاور دیگر طبی مراکز میں علاج ومعالجہ کی سہولتوں کابڑے پیمانےپر بندوبست رکھیں۔تاکہ اس وبائی لہر کے موجودہ قہر پر قابو پایا جاسکے اوردوبارہ ایسی صورت حال پیدا نہ ہوجائے، جس کالرزہ آج تک برقرار ہے۔ اس موقعہ پر سجدہ کرنا ،ماتھا ٹیکنا اور منشائے خدا کے مطابق زندگی گزارنےکا اصل مقصد سمجھنا بھی ہرانسان کے لئے ضروری ہے ورنہ خود ہی ایسی کوئی ہستی یا چیز بننے کی خواہش رکھنا ،ساری دنیا کو اپنے زیر نگین رکھ کر بلا شرکت ِ غیرے حکمران بننا، اپنی مرضی سے اپنا رُخ بدلنااوراپنے آپ کو لوگوں کی موت یا زندگی کا مجاز سمجھنا خوابوں کی دنیا میں رہنے کے ہی مترادف ہے۔ کیونکہ دیکھا یہی جارہا ہے کچھ لوگ ایسے بھی ہوتےہیں جو محبت کے اہل نہیںہوتے،پھر بھی انہیں اپنی ذہانت پر اس قدر مان ہوتا ہے کہ وہ دوسروں میں کیڑے نکال کراُس  کا قد چھوٹا کرکےاُس کی خوبی میں بُرائی کا پہلو نکال کر اپنی عظمت کا ڈھول بجاتے ہیں۔چنانچہ ملک کی موجودہ صورت حال میںجہاں ایک طرف کورونائی قہرنےبھارتی معاشرےکی زندگی تلپٹ کرکے رکھ دی ہے وہیں دوسری طرف سماج کے بیشتر حصوں میںباہمی اخوت،بھائی چارہ،یک جہتی،ہمدردی اور مروت کی راہیں معدوم ہوچکی ہیں،دن بہ دن نفرت کا لاواپک رہا ہے۔سماج میںکچھ متعصب گروہ مذہبی تنائوپیدا کرکےہندو ئوںاور مسلمانوں کے درمیان خلیج ڈال رہےہیں، فسادات کو ہوا دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔جس کے نتیجہ میں نہ صرف ملک کی اقلتیں عدم تحفظ کا شکار ہورہی ہیں بلکہ سماج کا ذی ہوش طبقہ تشویش میں مبتلا ہے۔ مختلف سطحوں پر اور مختلف معاملوں میںسماجی انتظامیہ کی غیر ذمہ دارانہ پالیسیوں سے ملکی سماج میں بد انتظامی،غنڈہ گردی ،خود سری اور سینہ زوری کے ساتھ ساتھ جرائم کی رفتار میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔