سرینگر// حریت کانفرنس(گ) کے چیئرمین سید علی گیلانی نے اخباروں کااقتصادی کریک ڈائون کرکے اُن کے اشتہارات بند کرنے کی شدیدتنقید کرتے ہوئے کہا کہ پریس اورذرائع ابلاغ کو جمہوریت کاچوتھاستون کہلانے والے خود ہی اس ستون کوکمزور کرنے کیلئے اسی نام نہاد جمہوریت کا استعمال کرتے ہیں ۔ایک بیان میں گیلانی نے کہا کہ یہاں کے ہر طبقے اور مکتب فکر کی طرح میڈیا سے وابستہ لوگوں کو دوہری تلوار کا سامنا ہے ۔ہر طاقتور فرد اورادارے نے دھونس اوردبائو کاہتھیار استعمال کرکے کبھی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی تو کبھی اپنی من مانی تشریح منظر عام پر لاکر اسی میڈیا کااستعمال کیا۔انہوں نے کہا کہ انتہائی نازک اور نامساعد حالات میں یہاں کے میڈیا نے مجموعی طور حق وصداقت کو پیشہ ورانہ دائرے کے اندر رہتے ہوئے عوام تک پہنچانے کی مقدور بھر کوششیں کی ہیں۔ اگرچہ یہاں کے بیشتر اخبارات کی شہ سرخیوں کواستعماری طاقتوں اور ان کے حاشیہ برداروں کے لیے وقف رکھا گیا ہے اس کے باوجوداندرونی صفحات میں ہی سہی یہاں کے عوام کے جذبات اور سیاسی سوچ کو بھی تھوڑی بہت جگہ مل ہی جاتی تھی، لیکن جمہوریت کے دعویداروں کو اتنا بھی گوارا نہیں ہے۔ اب یہاں کی بیروکریسی کے ذریعے حیران کُن اور مضحکہ خیز حکمنامے اجراء ہوتے رہتے ہیں۔ آمدورفت کے واحد ذریعہ سڑک کو بند کردیا جاتا ہے تو بیروکریسی کے اعلیٰ عہدیدار تشریح اور جواز لے کر آگے آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بغیر کسی جائز اور معقول وجہ کے اخباروں کی اقتصادی ناکہ بندی اس تاناشاہی کا حصہ ہے جس کے تحت حکمران یہاں کے عوام، یہاں کے اداروں، یہاں کی صنعت، زراعت، سیاحت غرض ہر شعبہ کو عضو لاحاصل بناکر رکھ چھوڑ دیں گے تاکہ یہاں کے عوام دہلی کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور کئے جاسکیں۔ سید علی گیلانی نے کہا کہ استعمار کی نئی نئی تاویلیں سامنے آرہی ہیں۔ الیکشن ڈرامہ ہو، 15اگست ہو یا پھر کوئی اور سیاسی اہمیت کا دن ہو ،عوام کو تختہ مشق بناناحکومت کا من پسند مشغلہ بن گیا ہے۔ یہاں کی ہر پہچان اور شناخت کو زمین بوس کرنا اُن کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ یہ یہاں کے ہندنواز سیاسی طاقتوں،سیاسی طاقتوں، یہاں کی پڑھی لکھی اور مثبت سوچ رکھنے والے دانشوروں، قلمکاروں، ادیبوں اور خاص کر جوانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اس غیر فطری اور زبردستی قبضہ کے اثرات کس قدر بھیانک اور زہریلے ہوسکتے ہیں اور اگر ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو ان اثرات سے بچائے رکھنا ہے تو ہمارے ووٹ اور سپورٹ سے مسند اقتدار پر پہنچنے والوں کو ایک واضح اور دوٹوک پیغام دینا ہے کہ عوام اُن کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کو تباہ وبرباد کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔