جس طرح سے ایک پیڑ پودے پر آس پاس کے ماحول کا خاصا اثر ہوتا ہے اُسی طرح سے خاندان کے اوپر بھی آس پاس کے سماجی، سیاسی اور مذہبی رجحانات کا اثر ہوتا ہے۔ اب اگر کشمیر کے خاندانی مسائل کی بات کرنی ہو، تو یہاں کے حالات و واقعات کو ملحوظ نظر رکھنا ضروری ہے۔ ویسے مسائل کا ہونا کوئی معیوب بات نہیں ہے، البتہ اگر مسائل حد سے زیادہ گذر جائیں اور سماج کو بحیثیت مجموئی اپنی لپیٹ میں لے لیں تو یہ حل و غور طلب مسئلہ بن جاتا ہے۔ کشمیر میں بھی اندرون و بیرون خاندان میں کئی سارے مسائل دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ذیل میں ہم محققین کی نظر سے چند ابھرتے خاندانی مسائل کا تذکرہ کرتے ہیں۔
٭گھریلو تشدد(Domestic Violance)
گھریلو تشدد اُس ایک زیادتی کا نام ہے جو بہوئوں پر اُن کے نئے گھر میں شوہر ، ساس یا باقی لوگوں کی طرف سے مختلف انداز سے کی جاتی ہے۔ اس میں جسمانی، ذہنی اور مالی ایذا رسانی شامل ہے۔ کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سماجی خدمات کی محققہ افنان طارق کا کہنا ہے کہ نیشنل فیملی ہیلتھ سرو ے کی طرف سے2016 میں کی گئی ایک سروے کے مطابق کشمیر میں کُل بیاہی خواتین کا9 فیصدی حصہ گھریلو تشدد کی مختلف شقوں کا شکار ہے۔ افنان طارق کا ماننا ہے کہ گھریلو تشدد کا تناصب زیادہونا چاہیے ، کیوں کہ اس میں بیشتر واقعات کو مختلف وجوہات کی بنا پر ریکارڑ میں نہیں لایا جاسکتا ہے۔گھریلو تشدد کی مختلف وجوہات کو گنواتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ اس میں؛۱۔شوہر کا ناقص مزاج۔۲۔ نفسانی الجھنیںاور مالی مشکلات ،۳۔ دولہن کا جہیز نہ لانا،۴۔ شوہر یا بیوی کی غیر مناسب تعلیم و تربیت،۵۔ میاں بیوی کے درمیاں روابط کی کمی، ۶۔ مسئلوں کو نظر انداز کرنا،۷۔ بچے کا جنم نہ دینا،۸۔ لڑکے کا جنم نہ دینا ،۹۔ میاں بیوی میںسے کسی ایک کا دوسرے سے بے وفائی کرنا،۱۰۔ میاں بیوی کے گھرانوں میں تفاوت ہونا،۱۱۔ میاں بیوی کا آپس میں ہم پلہ نہ ہونا ، وغیرہ کو سماجی تشدد کے مختلف وجوہات کے طور پر کشمیر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
افنان طارق کا ماننا ہے کہ نکاح کرنے کے معاملات میں انسان اگر اسلامی اصول و ضوابط کی پابندی کرے، توگھریلوتشدد کا کسی حد تک خاتمہ ہوسکتا ہے ۔ اُن کا مزید ماننا ہے کہ اسلام کی طرف سے نکاح اور میاں بیوی کے تعلقات کے حوالے سے پیش کردہ رہنمائی تمام تر مسائل کا حل ہے۔اُن کا مزیدکہنا ہے کہ گھریلوتشدد کو روکنے کے لیے اگر پولیس کی طرف رجوع کرنے کے بجائے سماجی سطح پر ہی کوئی صورت نکل آئے تو اُسے اختیار کرنا زیادہ بہتر ہے۔ اِ س کے ساتھ اگر نکاح کرنے کے معاملات میں جوڑے ادور گھروانوںکی ہم آہنگی کو بھی مد نظر رکھا جائے تو یہ کامیاب نکاح ہو سکتا ہے۔ مسئلے کو حل کرنے کے لیے بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام ہونا چاہیے اور اگر ہوسکے تو شادی شدہ جوڑے کے لیے علمائوکی طرف سے مشاورت(counselling) کا باضابطہ انتظام بھی ہونا چاہیے، جس میں میاں بیوی کو اُن کے حقوق و فرائض سے آشنا کیا جاتا ہو، تو صورتحال بہتر ہو نے کی پوری امید ہے۔
٭دیر سے شادیاں (Late Marriages)
دیر سے شادیاں کرنے کے رجحان میں کشمیر میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ نوجوانوں کی شادی کرنے کی اوسط عمر30سال تجاوز کرنے کے قریب ہے۔ اس کی کئی ساری وجوہات ہیں، جن میں مالی خود کفالت،خاص کر سرکاری نوکری کا نہ ملنا ایک بڑا سبب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے چکر میں بھی نوجوان نکاح کے بندھن سے قطع تعلقی اختیار کرتے ہیں ، وہی جہیز اور شادی میں اعلیٰ پایے کے انتظامات کے لیے مالی دشواریاں برداشت نہ کرنے کی سکت بھی بطوراسباب گنائے جا سکتے ہیں۔ دیر سے شادیاں کرنے کا خاصا اثر منفی انداز میںنہ ۔صرف خاندان بلکہ سماج پر بحیثیت مجموئی پڑتا ہے۔ جسمانی، ذہنی و جذباتی طور نوجوان ایک ہیجان میں مبتلا رہتا ہے۔ انسان کا اخلاقی طور صاف ستھرا رہنا بھی ایک دشوار کن معاملہ بن جاتاہے۔ اس سلسلے یہ تحقیق بھی قابل غور ہے کہ دیر سے شادیاں سے کرنے سے انسان کے اندر بانچھ پن ہونے کے خطرات لاحق رہتے ہیں اور بچوں کے ناکارہ پیدا ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں، کیوں کہ قدرت نے جس عمر میں شادی کرنے کی ترغیب دی ہے اُس کو اگر انسان نظر انداز کرے تو انسان کے جسم میں کچھ ایسی طبی تبدیلیاں آجاتی ہیں جو انسان کی ازدواجی زندگی کے لیے ناموافق ہوتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک تو سماجی سطح پر اس سماجی مسئلے کا حل تلاش کیا جائے، دوم،نکاح کو آسان سے آسان تر کیا جائے، اور سوم، نوجوانوںکو سرکاری نوکری کے نہ ہونے کے باوجود نکاح کرنے پر اُبھارا جائے۔ اس کے علاوہ سرکاری و انتظامی سطح پر اس مسئلے کے اوپر فی الفور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
٭ بانجھ پن (Infertility)
کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سماجی خدمات کی محققہ مسرت علی جو ا پنی تحقیقی ’کشمیر میں بانجھ پن ‘پر کر رہی ہیں ،بانجھ پن کی اصطلاح کو اس طرح بیان کرتی ہیں کہ ’ عالمی تنظیم برائے صحت کے مطابق اگر عورت ازدواجی تعلق (جس میں بچہ نہ ہونے کی تکنیک نہ آزمائی جاتی ہو )قائم کرنے کے دو سال بعد بچہ جنم دینے سے قاصر رہے ، تو یہ بانجھ پن کی علامت ہے، حالانکہ بعض معنوں میں یہ مدت صرف ایک سال ہے‘۔ بانجھ پن کی وجوہات کے حوالے سے مسرت علی کا کہنا ہے کہ ’کشمیر میں اس کے وجوہات بہت سارے ہیں جن میں دیر سے شادیاں کرنا اِس کی بنیادی اور سب سے بڑی وجہ ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیر ایک شورش زدہ خطہ ہے جس کی وجہ سے یہاں پر حالات ہمیشہ کشیدہ رہتے ہیں ۔ حالات کی کشیدگی سے یہاں پر بہت سار ی نفسانی الجھنیں پیدا ہوتی ہے جن کا براہ راست اثر انسان کے طبعی صحت پر پڑتا ہے اور پھر harmonal تبدیلیاں انسان کے اندر وقوع پـذیر ہوجاتی ہیںـــ‘۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’ پچھلے دو دہائیوں میں کشمیر میں طرزِ زندگی یک لخت تبدیل ہو چکا ہے اور لوگ قدرتی غذائوں کے مقابلے میں غیر قدرتی غذائو کو پسند کرنے لگے ہیں ، پیدل چلنے کے بجائے اکثر نجی گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں ، یہ بھی ایک وجہ ہے‘۔ اُن کا کہنا ہے کہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو سن بلوغیت میں پہنچنے کے بعد اپنے طرزِ زندگی اور کھانے پینے کے عادات کو درست کرنا چاہے، کیوں کہ صحیح طرزِ زندگی اور کھانے پینے کے غیر مناسب عادات نوجوان کے جسمانی صحت پر خاصا اثر ڈالتے ہیں‘۔2007 میںکی گئی ایک تحقیق کا حوالے دیتے ہوئے اُن کا کہنا ہے کہ’ کشمیر میں بانجھ پن کا تناصب15 فیصدی ہے اور یہ وہ خواتین ہیں جن کو طبی مراکز میں دیکھا گیا ہے، اب اتنا وقت ہوچکا ہے اور اس موضوع پر مزید کوئی تحقیق نہیں ہوئی ہے تو آج یہ تناصب کہاں تک پہنچ گیا ہوگا، اس کا اندازہ کرنا کوئی مشکل بات نہیں ہے‘۔ بانچھ پن کے خاندان اور سماج پر اثرات کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ ’اس سے پہلے تو عورت پر خاصا ذہنی دبائو رہتا ہے، دونوں میاں بیوی کی ازدواجی زندگی متاثر رہتی ہے، طلاق واقع ہوجاتی ہے،سماجی تشدد بھی بڑھ جاتا ہے‘۔ان کا کہنا ہے کہ’ بانجھ پن نہ صرف خواتین میں بلکہ مرد حضرات میں بھی برابر کے تناصب سے ہوتا ہے‘۔ بانجھ پن جیسی سماجی برائی کو قابو میں لانے کے لائحہ عمل کے حوالے سے مسرت علی کا کہنا ہے کہ ’ کہ مناسب وقت پر شادی کرنی چاہیے، طرزِ زندگی موافق اختیار کرنی چاہیے، قدرتی غذائیں کھانی چاہیے ، گھر میں خوشگوار ماحول قائم کرنے کی ضرورت ہے ، عوام کے اندر اس حوالے سے انفارمیشن بڑھانے کی بھی ضرورت ہے اور اس کے بعد طبی مدد بھی حاصل کرنی چاہیے‘۔
٭نیم بیوائیں (Half Widows)
ایسی خواتین جن کے شوہر کسی وجہ سے لاپتہ ہوئے ہیں اور اُن کا کہی کوئی اتہ پتہ ہی نہ ہو کو انگریزی Half Widows، یعنی کہ ’نیم بیوائیں‘ سے جانا جاتا ہے۔ کشمیر میں جاری شورش کی وجہ سے کئی سارے افراد ،جن میں شادی شدہ و غیر شادی شدہ مرد شامل ہیں لاپتہ ہوئے ہیں،اور ان کا کہی کوئی سراغ ہی نہیں مل رہا ہے۔ Association of Parents of Disappeared Persons کے مطابق کشمیر میں مسلح تحریک کے شروع ہونے سے یہا ں پر دس ہزار کے قریب افراد لاپتہ ہوئے ہیں جنہیں کسی بہانے حکومتی فورسز نے حراست میں لیا ہے اور آج تک اُن کے بارے میں کوئی خبر ہی نہی ہے کہ آیا زندہ ہیں یا مر چکے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان میں دو ہزار کی شادی ہوچکی تھی۔ انڈین سوشل انسٹیٹیو ٹ دہلی کی ایک محققہ کی تحقیقی کے مطابق 98 فیصدنیم بیوائوں کی ماہانہ آمدنی چار ہزارروپیوں سے کم ہے۔ 79فیصدی خواتین کسی نہ کسی طبی مشکلات سے دوچار ہیں وہی62 فیصدی خواتین مستقل دوائی لیتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسی خواتین کو کئی ساری نفسانی امراض میں مبتلا پایا گیا ہے۔
ایسے لاپتہ افراد کو فقہی اصطلاح میں مفقود الخبر کہتے ہیں ۔ کشمیر کے خاندانی نظام کے لیے یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ ان خواتین کے لیے شرعی طور پر کون سا فتویٰ صادر کیا جائے ، جن کے شوہر مفقود الخبر ہیں۔ علماء اسلام کے اندر بھی اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مولانا مودودی کے مطابق ’’اس مسئلے میں جب ہم قرآن مجید کے اصولی احکام کی طرف رجوع کرتے ہیں تو حضرت عمر ؓ اور ان کے متبعین کا مذہب (کہ مفقود کی بیوی کو چار سال تک انتظار کا حکم دیا جائے ) ہم کو صحیح معلوم ہوتا ہے اور وہی اسلامی قانون کی روح ، اس کے عدل اور اس کی فطرت سے مطا بقت رکھتا ہے‘‘ ( حقوق الزوجین، صفحہ؛ ۱۰۸، ۱۰۹)۔ مولانا مودوی اس مسئلے پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’قرآن کسی عورت کو معلق چھوڑ دینا پسند نہیں کرتا اور جب وہ شوہر کی موجودگی میں اس کو ناپسند کرتا ہے تو اس کے مفقود ہونے کی صورت میں کیوں کر پسند کر سکتا ہے؟ ‘‘۔ آگے لکھتے ہیںکہ ’’ظاہر ہے کہ مفقود الخبر کی بیوی کو مدت العمر انتظار کا حکم دینے میں انتہا درجے کا ضرار ہے‘‘۔ اب مسئلہ جو بھی ہے لیکن کشمیر کے علماء پر یہ ایک دینی ذمہ واری ہے کہ وہ ایک مشترکہ حل اس معاملے میں تلاش کریں۔
٭ یتامیٰ
قدرتی آفات سے کسی کے والد کا فوت ہوجانا تو ایک بات ہے، لیکن کشمیر میں یتیموں کی تعداد میں ہوش ربا اضافہ اُس وقت سے شروع ہوگیا جب یہاں مسلح تحریک شروع ہوئی۔ کشمیر یونیورسٹی کے سابق پروفیسر( مرحوم) بشیر احمد ڈابلہ کی طرف سے2012میں شائع شدہ مقالے کے مطابق کشمیر میں دو لاکھ، چالیس ہزار بچے یتیمی کی زندگی گذار رہے ہیں، جن میں سے کثیر تعداد بچوں کے والد ( یا والدین) وادی میں جاری شورش کی وجہ سے وفات پاگئے ہیں ۔جس کی وجہ سے یہاں پر یتیم خانوں کا جھال بچھ گیا۔ یتیم خانوں میں بچے کئی ساری مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر مشتاق مرغوب کی ایک تحقیقی کے مطابق قریباً41فیصدی بچے post-traumatic stress disorder میں مبتلا ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی ساری ذہنی الجھنیں ان بچوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ گو کہ یتیم خانوں کا یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت میں ناقابل تردید رول ہے ، لیکن بیٹھنے کے لیے مناسب انتظام، طبی امداد، تفریحی انتظامات ، وغیرہ کی کمی یہاں پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ ا س کے ساتھ ساتھ ایسے بچوں کو سماج میں ایک مختلف نظر سے بھی دیکھا جاتا ہے۔