جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبد اللہ متنازع بیانات کیلئے جانے جاتے ہیں۔انہوں نے حال ہی میں اپنے ایک انٹریو میں کہا کہ کشمیر کے لوگ فی الوقت اپنے آپ کوہندوستانی محسوس نہیں کرتے ہیں۔ معروف صحافی کرن تھاپر کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فاروق نے کہا’’آج کشمیری لوگ خود کو ہندوستانی محسوس نہیں کرتے ہیں‘‘۔
فاروق عبد اللہ کے اس بیان نے وادی کشمیر میں کوئی ہلچل پیدا نہیں کی اور مقامی بھاجپا کی طرف سے ایک رسمی مذمتی بیان کے ساتھ ہی فاروق کی اس بات کی ان سُنی کردی گئی۔عوامی حلقوں میں بھی اس کاکوئی خاص چرچانہیں ہوا ۔ویسے بھی سر زمین کشمیر کے اندر ایک ایسی خاموشی چھائی ہے جہاں اب شاذ و نادر ہی کوئی عوامی رد عمل دیکھنے کو ملتا ہے۔جس خطے کے لوگوں کو زور دار رد عمل کیلئے جانا جاتا تھا وہاںگذشتہ ایک سال کے زیادہ عرصہ سے حکومتی سطح پر کامیابی کے ساتھ ’خاموشی کا نفاذ‘ عمل میں لایا جارہا ہے۔مبصرین عوامی سطح کی اس خاموشی کو بھی احتجاج کا ہی ایک طریقہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جونہی حکومت اور اس کے اداروں کی گرفت تھوڑی بہت نرم پڑ جائے گی تو لوگوں کا رد عمل پھر سامنے آئے گا پھر وہ کس نوعیت کا ہوگا اُس کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔
فاروق عبد اللہ خود کو جموں کشمیر کا ایک ایسا لیڈر منوانے کیلئے کوشاں ہیں جس کو ہر مین اسٹریم پارٹی کی قبولیت حاصل ہو۔وہ گذشتہ سال سے ایسی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں جن سے یہ عندیہ مل رہا ہے کہ وہ خود کو جموں کشمیر کی شناخت کے علمبردار کے طور پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کی سر براہی میں اس سال 22اگست کو ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس میں نصف درجن ایسے لیڈران نے شرکت جو مختلف پارٹیوں کی نمائندگی کررہے تھے۔ میٹنگ کے بعد اُن کی رہائش گاہ سے ایک بیان جاری ہوا جس میں’’جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن کی بحالی کیلئے مشترکہ جد و جہد ‘‘ کا فیصلہ کیا گیا اور جس کو ’’گپکار اعلامیہ دوم‘‘ کا نام دیا گیا۔اس سے ایک سال قبل5اگست2019کو پارلیمنٹ کے ہاتھوں جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن قصۂ پارینہ بن گئی اورفاروق دیگر لیڈران کو حراست میں لیا گیا۔ اسی طرح کی ایک میٹنگ4اگست2019کو بھی فاروق عبد اللہ کی رہائش گاہ پر ہی منعقد ہوئی تھی ۔اس میں بھی کئی پارٹیوں کے نمائندوں نے شرکت کی تھی اور اس میں بھی جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن کے تحفظ کو لیکر اتفاق رائے کے بعد اُسے ’’گپکار اعلامیہ‘‘ کا نام دیا گیا تھا ۔
بظاہراس وقت جموں کشمیر کی سبھی مین اسٹریم پارٹیاں دفعہ370کی بحالی کی خواہش پر متفق نظر آرہی ہیں ۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کو لیکر اُن کے پاس کوئی واضح روڑ میپ نہیں ہے۔فاروق عبد اللہ اپنی پارٹی کے دو ساتھیوں کیساتھ جاری پارلیمنٹ اجلاس میں بھی شریک ہیں لیکن وہ وہاں بھی کوئی خاص حمایت جٹانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ایک دو بیانات دیکر فاروق کا شاید ماننا ہے کہ اُنہوں نے حق ادائی کی ہے لیکن سیاست ایک ایسا کھیل ہے جس میں اگر آپ عوامی حلقوں کو متحرک نہیں کرسکتے تو اُس کو کامیاب سیاست نہیں مانا جاتا ہے۔فاروق عبد اللہ نہ جموں کشمیر کے عوام میں ہی کوئی اُمید جگاسکے ہیںاور نہ اُنہوں نے دلی جاکر کشمیر کی سابق خصوصی پوزیشن کے حق میں سرگرمیاں انجام دی ہیں۔ایسا محسوس ہورہا ہے کہ فاروق عبد اللہ اپنی سیاست اور طرز عمل و طرز فکر میں تبدیلی نہ لاکر روایتی طریقوں میں ہی اٹک کر رہ گئے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے عوامی حلقے گپکار اعلامیہ کو لیکر بھی سرد مہری کا ہی اظہار کررہے ہیں اور فاروق کے بیانات کو بھی حسب سابق سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔فاروق نے نئی دلی میں وزیر اعظم یا وزیر داخلہ سے ملنے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی تاکہ اُنہیں اپنے کیس کی پیروی کا موقع ملتا۔وہ تو حزب اختلاف کو بھی قائل کرنے میں ناکام رہے جس کی بنا پر موجودہ پارلیمانی سیشن میں ایک بار بھی کسی پارٹی کی طرف سے جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن کی بات نہیں چھیڑی گئی۔
گپکا اعلامیہ کے دستخط کنندگان کو شاید معلوم نہیں کہ عوام عملی اقدامات پر یقین رکھتے ہیں اور محض بیان بازی اُن کو مطمئن نہیں کرسکتی ہے۔بیشتر عوامی حلقے فاروق عبد اللہ اور ان کے دو پارٹی ساتھیوں کی پارلیمنٹ میں موجودگی کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے کہتے ہیں ’’اگر فاروق اپنی بات میں مخلص ہوتے تو وہ کم سے کم بطور احتجاج پارلیمنٹ کی رکنیت سے ہی مستعفی ہوتے ‘‘۔لیکن سوال یہ ہے کہ اگر فاروق عبد اللہ وغیرہ پارلیمنٹ کی رکنیت سے مستعفی ہوتے ہیں توپھر وہ کس فورم میں جاکر بات کریں گے؟ تجزیہ نگاروں کا تاہم کہنا ہے کہ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے ہی فاروق عبد اللہ کے سامنے نئے راستے کھلنے کا امکان ہے۔
سیاسی مبصرین مانتے ہیں کہ اگر فاروق اور گپکار اعلامیہ کے باقی ماندہ دستخط کنندگان 5اگست2005سے پہلی کی صورتحال کی بحالی کیلئے عوام میں سرگرم ہوتے ہیں تووہ عوامی حلقوں میں اپنی جگہ بنانے میں کسی حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں جو اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔چونکہ گذشتہ ایک سال سے زیادہ عرصہ میں یہاں مزاحمتی سیاست شجر ممنوعہ ہے اس لئے مین اسٹریم سیاست دانوں کیلئے عوامی سرگرمیاں انجام دینے کا بہترین موقع ہاتھ آیا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نئی دلی نے کشمیر میں ہر طرح کی سیاسی سرگرمیوں پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کرکے خوف کی سیاست کیلئے زمین ہموار کر رکھی ہے اور یہ خوف نہ صرف علیحدگی پسند بلکہ مین اسٹریم خیمے پر بھی بدرجہ اتم طاری ہے۔تجزیہ نگاریہ بھی کہتے ہیں کہ فاروق اینڈ کمپنی نئی دلی کی ناراضگی مول لینے کیلئے تیار نہیں ہیں جو دہائیوں سے اُن کی سیاسی مقبولیت کو اثر انداز کررہی ہے۔اُنہیں ڈر ہے کہ اگر فاروق عبد اللہ یا کسی اور مین اسٹریم لیڈر نے کوئی ایسی سرگرمی شروع کی جسے نئی دلی نے’’قومی مفاد‘‘ کے منافی اور ’’ملک دشمنی‘‘ قرار دیا تو اُس صورت میں ایک بار پھر اُن کا قافیہ تنگ کیا جاسکتا ہے ۔ایسی صورت میںپردیش کانگریس کو بھی مجبوراً گپکار اعلامیہ سے علیحدگی اختیار کرنی پڑے گی بصورت دیگر اُسے ملک کے اندر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا جہاں سخت گیر سیاست انتہائی تیزی کے ساتھ پنپ رہی ہے۔
حالانکہ سیاسی مبصرین کشمیر کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے ایک جگہ جمع ہونے اور کسی ایک بات پر متفق ہونے کو محاذ رائے شماری سے تشبیہ دیتے ہوئے محسوس کرتے تھے کہ شاید اب یہی پارٹیاں کشمیر کی کھوئی ہوئی خصوصی پوزیشن کی واپسی کیلئے کوئی راہ تلاش کریں گی لیکن مین اسٹریم سیاست دانوں کی محدود سرگرمیوں اور بیان بازیوں سے عوامی حلقوں کے ساتھ ساتھ مبصرین بھی اس سوچ میں پڑے ہیں کہ فاروق اینڈ کمپنی کے دماغ میں کیا چل رہا ہے؟۔قابل ذکر ہے کہ فاروق کے والد مرحوم شیخ محمد عبد اللہ نے اقتدار کے عوض محاذ رائے شماری کو دفنا دیا تھا۔
فاروق کی سربراہی والی نیشنل کانفرنس کی سیاسی حریف پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کو جموں کشمیر میں دوسرے نمبر پر رکھا جارہا ہے یہ پارٹی سنگین داخلی انتشارکا شکار ہے۔ اس کے صف اول کے لیڈران اور سابق ممبران قانون سازیہ پہلے ہی پارٹی چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔اس پارٹی میں اب گنتی کے لیڈر ہی ایسے رہ گئے ہیں جنہیں کسی حد تک عوامی مقبولیت حاصل ہے۔ پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی کے مسلسل حراست میں رہنے کی وجہ سے بھی مذکورہ پارٹی جمود کا شکار ہے تاہم مبصرین کہتے ہیں کہ محبوبہ کی رہائی سے پی ڈی پی میں نئی جان آسکتی ہے کیونکہ وہ عوامی حلقوں میں متحرک ر ہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جس کی بنا پر ہی اُن کے والد مرحوم مفتی محمد سعیدکی قائم کی گئی پارٹی کو قیام کے محض تین سال بعد ہی اقتدار حاصل ہوگیا۔شاید نئی دلی کو بھی محبوبہ کی اس صلاحیت کا علم اور اعتراف ہے، اسی لئے اُن کی رہائی میں تاخیر سے کام لیا جارہا ہے ورنہ جب ایک ایک کرکے سبھی مین اسٹریم لیڈران کو آزاد کیا گیا ہے تو جموں کشمیر کی اب تک کی واحد خاتون وزیر اعلیٰ کی قید و بند چہ معنی دارد؟۔
******************************