سیکورٹی اور انکرپشن
انٹر نیٹ کا استعمال آج لگ بھگ نوے فیصد لوگ کررہے ہیں۔ گاؤں اور قصبوں میں اِس کا استعمال ذرا کم ہوتا ہے ۔ چھوٹے شہروں میں انٹر نیٹ کا استعمال اُس سے زیادہ ہوتا ہے اور بڑے شہروں میں تو اس کا استعمال لگ بھگ سوفیصد ہوتا ہے ۔ ایک عالمی نیٹ ورک کے طور پر انٹرنیٹ کی طاقت اور خوبصورتی کے باوجود یہ واقعتاً غیر محفوظ ہے ۔ رابطوں کے نت نئے طریقوں کی دریافت سے ڈیٹا بیسوں کی سیکورٹی توڑ کر حساس معلومات تک رسائی ممکن ہے اور کوئی بھی انفارمیشن ٹکنالوجی کا ماہر معلومات ’’ہیک‘‘ کرسکتا ہے ۔ یہ معاملہ گوگل کے لئے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے جس کے پاس ’’جی میل ، گوگل ایپس اور گوگل Docs کی صورت میں صارفین کی حساس معلومات کا جم غفیر ہے ۔ جس رفتار سے ترقی انفارمیشن ٹکنالوجی اور کمپیوٹر سائنس کے میدان میں ہورہی ہے اُسی رفتار سے ’’ہیکرز‘‘ وغیرہ بھی اپنے آپ کو نت نئے ٹولز سے لیس کررہے ہیں ۔ اِسلئے گوگل کی سائنسی ٹیم ’’معلومات کی حفاظت‘‘ کو یقینی بناے کے لئے ہمہ وقت سرگرداں رہتی ہے تاکہ یہ پیغامات اور ڈیٹا محفوظ رہیں اور اِن میں سے کوئی ایک بھی لفظ غیر محفوظ ہاتھوں تک نہ پہنچ سکے ۔ دوسری صورت میں گوگل کی شاندار عمارت کو زمین بوس ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
گوگل کی اپنی پروگرامنگ لینگویج
کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی اپنی ’’پروگرامنگ لینگویج‘‘ ہوتی ہے جو صرف وہی سمجھتا ہے ۔ اگر دستیاب پروگرامنگ کی زبانیں وہ کام کرنے سے قاصر ہوں جو آپ کرنا چاہتے ہوں تو آپ کیا کریں گے؟ کیا اپنی ذاتی لینگویج (زبان) ایجاد کریں گے؟ گوگل نے یہی کیا ہے اور ’’ڈارٹ‘‘ اور ’’گو‘‘ زبانیں ایجاد کی ہیں ۔ انہیں نہ صرف اُس نے مفاد عامہ کے لئے انٹر نیٹ پر جاری کردیا ہے بلکہ ’’اوپن سورس‘‘ بھی کردیا ہے ۔ اِس کے ساتھ ساتھ حالیہ زبانوں کی کارکردگی میں اضافے پر بھی گوگل کی تحقیق جاری ہے جن میں ’’سی پلس پلس، جاوا اور پائتھن‘‘ شامل ہیں ۔ اِس میدان میں گوگل واحد کھلاڑی نہیں ہے بلکہ کئی دوسری ویب سائٹس نے بھی اپنی مرضی کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے ’’پروگرامنگ لینگویجز‘‘ بنا رکھی ہیں یا پہلے سے دستیاب لینگویجز کو تبدیل کررکھا ہے ۔ ’’فیس بک‘‘ بھی ایک تبدیل شدہ لینگویج استعمال کرتا ہے ۔ گوگل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس کا ’’بیک اینڈ‘‘ خالصتاً ’’سی پلس پلس‘‘ میں تحریر شدہ ہے جبکہ اُس کے ’’فرنٹ اینڈ‘‘ کو ’’جاوا‘‘ اور ’’پایتھن‘‘ میں تیار کیا گیا ہے۔
تیز رفتار سرچ سسٹم
کئی سال پہلے جب گوگل نیا نیا تھا اور دوسرے ’’سرچ انجن‘‘ بھی انٹرنیٹ کی دنیا میں چل رہے تھے تب کسی چیز کو ’’سرچ‘‘ کرنے میں بہت وقت لگتا تھا ۔ اِس بات کو گوگل نے محسوس کیا اور اُس کی ریسرچ ٹیم نے سرچ سسٹم کو تیز رفتار کرنے کی کوشش کی ۔ اِس میں اُنہیں کامیابی بھی ملی اور گوگل کا ’’سرچ‘‘ ہر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ تیز رفتار ہوتا گیا ۔ پھر یہ کیفیت ہوگئی کہ صارف جو چیز بھی گوگل پر سرچ کرتا تھا تو وہ صرف ایک سیکنڈ میں سرچ ہوجاتی ہے ۔ گوگل اتنی رفتار پر بھی مطمئن نہیں ہے اور اُسے اِس رفتار سے بھی زیادہ تیزی چاہیئے ۔ گوگل کا خیال ہے کہ ایک سیکنڈ بہت زیادہ طویل وقت ہے اور اِسے اور ’’سرچ‘‘ کو اور زیادہ تیز رفتار کرنے کے لئے گوگل کی ’’سرور‘‘ اور ’’نیٹ ورکنگ‘‘ پر تحقیق ہمہ وقت جاری رہتی ہے تاکہ اُن پر بوجھ کے وقت کو کم کیا جاسکے ۔ جب آپ گوگل پر کچھ تلاش (سرچ) کرتے ہیں تو نتائج عموماً ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت لیتے ہیں ۔ گوگل پر تلاش (سرچ) کے میعار کا تقاضہ ہے کہ یہ وقت نتائج کے میعار پر اثر انداز ہوئے بغیر کم سے کم کیا جائے ۔ اپنی اِس کوشش میں گوگل کافی حد تک کامیاب بھی ہے ۔ ہر گرتے دن کے ساتھ گوگل پر سرچ کا وقت کم ہوتا جارہا ہے اور نتائج بہتر سے بہتر ہوتے جارہے ہیں۔
اینڈرائیڈ اسمارٹ فونز
آج کل ’’موبائل اسمارٹ فونز‘‘ کا استعمال اتنا زیادہ ہوچکا ہے کہ ہر شخص کے ہاتھ میں بہترین ’’اینڈرائیڈ اسمارٹ فون‘‘ دکھائی دیتا ہے ۔ حیرت کی بات تو یہ کہ مردوں سے زیادہ خواتین کے ہاتھوں میں ’’اسمارٹ فونز‘‘ زیادہ دکھائی دیتے ہیں ۔ پھر چاہے وہ ڈاکٹر ہو ، یا وکیل ہو ، یا آفس میں جاب کرنے والی ہو ۔ حد تو یہ کہ جو خواتین صرف اُمور خانہ داری کرتی ہیں اُن کے ہاتھوں میں بھی بہترین ’’اینڈرائیڈ اسمارٹ فونز‘‘ دکھائی دیتے ہیں ۔ 1996 ء میں ’’ڈسکوری چینل‘‘ پر موبائل فون کے بارے میں ڈاکیومنٹری فلم پیش کی گئی تھی ۔ اُس میں ایک ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی کے اونر نے کہا تھا کہ ہماری کوشش یہ ہے کہ آنے والے دس سالوں میں دنیا کے ہر انسان کے ہاتھ میں ایک موبائل ہو ۔ وہ لوگ کامیاب ہوگئے اور آج دنیا کے ہر شخص کے ہاتھ میں ایک نہیں بلکہ دودو موبائل فون دکھائی دے رہے ہیں ۔ آج کل جو ’’اینڈرائیڈ اسمارٹ فونز‘‘ استعمال کئے جارہے ہیں اُن میں سے زیادہ تر میں ’’گوگل آپریٹنگ سسٹم‘‘ استعمال کیا جاتا ہے ۔ ہر فون میں گوگل کی طرف سے لگ بھگ دس سے پندرہ ’’سافٹ وئیر‘‘ مفت میں دیئے جاتے ہیں جو ’’آپریٹنگ سسٹم‘‘ کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ’’گوگل میپ‘‘ اور ’’گوگل ڈرائیو‘‘ وغیرہ۔ ہم روزآنہ اپنے موبائل فون پر ’’گوگل آپریٹنگ سسٹم‘‘ کا استعمال کرتے ہیں لیکن ہم نے کبھی اِس کے بارے میں غور نہیں کیا کہ اِس ’’آپریٹنگ سسٹم‘‘ کی شروعات کیسے ہوئی اور کہاں ہوئی اور کس نے کی؟ اِسی کے بارے میں ہم کچھ جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔
موبائل آپریٹنگ سسٹم
موبائل فونز ٹکنالوجی نے دنیا کو مزید مربوط کردیا ہے ۔ جیسے جیسے موبائل فونز کے صارفین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ویسے ویسے موبائل فونز ٹکنالوجی میں بھی آئے دن نئی نئی جدتیں متعارف کروائی جارہی ہیں ۔ ایک سادہ سا ہینڈ سیٹ Handast جو صرف فون کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا سے شروع ہونے والی داستان نے ہماری روزمرہ کی زندگی کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے ۔ موبائل فون اب صرف کان لگا کر سننے اور کہنے کے لئے نہیں رہ گیا ہے بلکہ اب ایک مکمل کمپیوٹر کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ اِس میں کیمرہ بھی نصب ہوتا ہے اور ریڈیو بھی ، اِس میں میوزیک پلئیر بھی ہوتا ہے اور ویڈیو پلیئر بھی ۔ اِس میں ٹی وی بھی ہوتا ہے اور اِس پر انٹرنیٹ استعمال کرنا اب ایسا ہوگیا ہے جیسے عام کمپیوٹر پر انٹر نیٹ استعمال کرنا ۔ یہ سب سہولیات صرف ’’موبائل فون ہارڈ وئیر‘‘ میں ترقی کا ثمر نہیں ہے بلکہ اِس میں ’’سافٹ وئیر‘‘ یعنی ’’موبائل آپریٹنگ سسٹم‘‘ کا بھی بڑا ہاتھ ہے ۔
گوگل اینڈرائیڈآپریٹنگ سسٹم
موبائل فونز کے لئے ’’آپریٹنگ سسٹم‘‘ پچھلی دو دہائی میں بہت ترقی کرچکے ہیں ۔ اِن کی ابتدائی شکل ایک سیاہ وسفید ڈسپلے اور بنیادی سہولیات تک محدود تھی لیکن اب یہ ’’آپریٹنگ سسٹم‘‘ کسی بھی طرح ’’ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر‘‘ پر چلنے والے ’’آپریٹنگ سسٹم‘‘ سے کم نہیں ہے 1996 ء میں palm OS ہو یا 2000 ء میں ’’ونڈوز پاکٹ پی سی‘‘ ، ہر نئے ’’آپریٹنگ سسٹم‘‘ نے موبائل فون کو جدید سے جدید تر بنایا ۔ پچھلے چند سالوں میں ’’بلیک بیری آپریٹنگ سسٹم ، ایپل آئی آپریٹنگ سسٹم اور اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم‘‘ نے موبائل اسمارٹ فونز کو ایک نئی جہت پیش کی ہے۔اِس وقت دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ’’اینڈرائیڈ موبائل آپریٹنگ سسٹم‘‘ ہے ۔ گوگل اِسے ایک سافٹ وئیر ’’اسٹیک‘‘ Stack کے طور پر متارف کراتا ہے کیونکہ یہ صرف ’’آپریٹنگ سسٹم‘‘ نہیں ہے بلکہ اِس میں ’’مڈل وئیر‘‘ (وہ سافٹ وئیر جو مختلف ایپلی کیشنز کو نیٹ ورک پر اور ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے کی سہولت دیتا ہے) اور ایپلی کیشنز بھی شامل ہیں ۔
اینڈرائیڈ سسٹم کی شروعات
اینڈرائیڈ انکارپوریشن وہ کمپنی ہے جس نے ’’اینڈرائیڈ‘‘ کی ڈیلوپمنٹ شروع کی تھی ۔ یہ کمپنی 2003 ء میں ’’پالو آلٹو‘‘ palo Alto کیلی فورنیا میں قائم کی تھی ۔ ابتداء میں اینڈرائیڈ کی ڈیلوپمنٹ میں گوگل کا کردار صرف سرمایہ کار جیسا تھا اور اِس ’’آپریٹنگ سسٹم‘‘ کی تمام تر تفصیلات کو خفیہ رکھا گیا تھا ۔ 2005 ء میں گوگل نے ’’اینڈرائیڈ انکارپوریشن‘‘ کو خرید لیا ۔ ’’اینڈرائیڈ‘‘ کا باقاعدہ اعلان 2007 ء میں ’’اوپن ہینڈ سیٹ ایلائنس‘‘ Open Handset Alliance کے پلیٹ فارم سے کیا گیا ۔ ’’او ، ایچ ، اے‘‘ یعنی اوپن ہینڈ سیٹ ایلائنس مشہور چھیاسی و معروف 86 سافٹ وئیر ، ہارڈ وئیر اور ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں پر مشتمل اتحاد تھا جس کا مقصد موبائل فونز کے ’’اوپن اسٹینڈرز‘‘ بنانا تھا ۔ ’’اینڈرائیڈ‘‘ کا پہلا ’’ورژن‘‘ ستمبر 2008 ء میں جاری کیا گیا تھا ۔
رابطہ : 7020048083