گول//جدیددنیا میں جہاں لوگوں کو ہر طرح کی سہولیات میسر ہیں وہاں ضلع رام بن کے گول تحصیل کے دور دراز گائوں گاگرہ ، بھمداسہ ۔ کلی مستیٰ کے لوگوں کو راشن اور دوسری ضروریات زندگی کی چیزیں لانے کے لئے 10,12,9کلو میٹر کاپیدل سفر کرنا پڑتا ہے۔10ہزار سے زائد آبادی والے گائوں میں90فیصد لوگ خطِ افلاس سے نیچے رہتے ہیں۔ ایک پہاڑی کے اوپر واقع ان دیہات کے سارے مکانات گارے سے بنے ہوئے ہیں اور دیگر دیہات کے ساتھ رابطہ سڑک اور بجلی کی سپلائی سے محروم ہیں۔یہاں کے لوگوں کو ایک موبائل کے دو بیٹریاں رکھنی پڑتی ہیں کیونکہ جب بیٹری ختم ہو جاتی ہے تو اس کو چارج کرنے کے لئے 10سے12کلو میٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے ۔ گائوں میںاگر چہ کریانے کی چھوٹی موٹی دکانیں ہیں تا ہم ان دکانوں سے ہر ضروریات زندگی کی چیزیں نہیں ملتی ہیں او ر وہاں بھی خریداروں کو گنی چنی اشیاء ہی ملتی ہے۔اگر چہ گاگرہ علاقہ میں گزشتہ سال بجلی کی سپلائی دی گئی لیکن کلی مستیٰ وغیرہ میں کچھ ایسے علاقے ہیں جو آج بھی بجلی کی سپلائی سے محروم ہیں ۔ گائوں والوں کو چھوٹی چھوٹی چیزوں کی خریداری کیلئے گول ، یا سنگلدان جانا پڑتا ہے جہاں سے گھوڑوں کے ذریعے یا خود پیٹھ پر لاد کر سامان لانا پڑتا ہے ۔مقامی لوگوںکاکہنا ہے کہ ’’ان کے گائوں میں کوئی راشن ڈیپو بھی نہیں اور جب دوردراز علاقے سے کلہم راشن حاصل کرتے ہیں تو اسے سنبھال کر رکھنے کی گنجائش بھی نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے بعض اوقات راشن خراب ہوجاتا ہے‘‘۔ ’’گائوںمیں اگر چہ طبی مرکز ہے تا ہم پوری سہولیات موجود نہیں ہیں اور لوگوں کو طبی سہولت بھی گول اور سنگلدان سے ہی حاصل کرتے ہیں جس کے لئے مریضوں کو لاد کر لے جانا پڑتا ہے‘‘۔ یہ طبی ادارے لوگوں کے رہائشی مکانات میں ہیں جہاں پر ملازمین کے علاقہ یہاں پر آنے والے مریضوں کو بھی کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔۔ گائوں کی معیشت کے بارے میں گلزار احمدنامی شہری کاکہنا ہے کہ گائوںمیں چند اشخاص سرکاری ملازمت کرتے ہیں جبکہ بقیہ آبادی یا تو مزدوری سے اپنا روزگار حاصل کرتی ہے یا پھر مویشی پالتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہماری آئندہ نسل کا مستقبل تاریک ہے اور ہم ساری امیدیں کھو بیٹھے ہیں‘‘۔ سرما کے ایام آتے ہی گائوں کی حالت مزید ابتر ہوجاتی ہے۔ برفباری شروع ہوتے ہی یہ تینوں گائوں باہر کی دنیا سے کٹ کررہ جاتے ہیں۔ ’’یہ گائوں برف کی 10فٹ موٹی تہہ کے نیچے دب جاتے ہیں اور ایسی حالت میں گھوڑوں کا عبورو مرور بھی مشکل ہوجاتا ہے‘‘۔ گائوںمیں ’’پینے کے پانی کے لئے صرف چشموں کا ذریعے ہے ۔لیکن ان چشموں سے عام لوگوں تک پائپوں کے ذریعے پانی نہیں پہنچایا جاتا ہے اور محکمہ صحت عامہ بھی خواب خرگوش میںہے ۔علاقہ بھمداسہ کے جمال الدین نامی ایک شخص کا کہنا ہے کہ یہ گائوں تحصیل گول کا سب سے زیادہ دور اور پہاڑی گائوں ہے ۔ جمالدین کا کہنا ہے کہ یہاں صرف الیکشنوں کے دوران لیڈران کا دورہ ضرور لگتا ہے اور یہ علاقہ ابھی بھی سڑک رابطہ سے منقطع ہے اور لوگوں کو صبح سویرے گول یا سنگلدان کا رُخ کرنا پڑتا ہے سودا وغیرہ خریدنے کے لئے اور مشکل سے شام کو گھر واپس پہنچتے ہیں۔۔ کلی مستیٰ کے نذیر احمد نامی ایک شخص کا کہنا ہے کہ اگر چہ مرکزی سرکار کی طرف سے پی ایم جی ایس وائی سکیم کے تحت گول سے گاگرہ کے لئے جو کلی مستیٰ کے بیچ سے روڈ پر تعمیر ی کام شروع ہوا ہے لیکن کلی مستیٰ اور ہارا علاقہ کے نزدیک نا معلوم وجوہات کی بناء پر اس کام کو روک دیا ۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کام ایسے ٹھیکیداروں کے صرف کیا گیا جو اثر و رسوخ ہیں اور کروڑ پتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں کوئی ٹس سے مس نہیں ہو رہا ہے اور شکایات کے با وجود سرکار اور انتظامیہ ان ٹھیکیداروں کاکچھ بگاڑ نہیں سکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جس وقت اس روڈ پر تعمیری کام شروع ہوا تھا اور یہی امید کی جاتی تھی کہ ایک یا دو سال کے اندر اندر یہ روڈ تعمیر ہو گا لیکن سیاسی اڑچنوں اور ٹھیکیداروں کی من مانی کی وجہ سے روڈ پر تعمیری کام روک دیا گیا ہے ۔